اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر۹۴

یہ واقعہ بھی کفار مکہ کے اُسی عذر کے جواب میں بیان کیا جا رہا ہے جس پر یہ آیت۵۷ سے مسلسل تقریر ہو رہی ہے ۔ اس سلسلہ میں  یہ بات ملحوظ خاطررہے کہ جن لوگوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے قومی مفاد پر ضرب لگنے کا خطرہ ظاہر کیاتھا وہ در اصل مکہ کے بڑے بڑے سیٹھ، ساہو کار اور سرمایہ دار تھے جنہیں بین الاقوامی تجارت اور سود خواری نے قارونِ وقت بنا رکھا تھا۔ یہ لوگ اپنی جگہ یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ اصل حق بس یہ ہےکہ زیادہ سے زیادہ  دولت سمیٹو۔ اس مقصد پر جس چیز سے بھی آنچ آنے کا اندیشہ ہو وہ سراسر باطل ہے جسے کسی حال میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرف عوام الناس دولت کے ان میناروں کو آرزوں بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے اور ان کی غایت تمنا بس یہ تھی کہ جس بلندی پر یہ لوگ پہنچے ہوئے ہیں، کاش ہمیں بھی اس تک پہنچنا نصیب ہو جائے۔ اس زر پرستی کے ماحول  میں یہ دلیل بڑی وزنی سمجھی جا رہی تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس توحید و آخرت کی، اور جس ضابطہ اخلاق کی دعوت دے رہے ہیں اسے مان لیا جائے تو قریش کی عظمت کا یہ فلک بوس قصر زمین پر آ رہے گا اور تجارتی کاروبار تو درکنار جینے تک کے لالے پڑ جائیں گے۔