اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر۸۴

یہ ان کا عذر کا چوتھا جواب ہے۔ اس جواب کو سمجھنے کے لیے پہلے دو باتیں اچھی طرح ذہن نشین ہو جانی چاہییں:
          اول یہ کہ دنیا کی موجودہ زندگی ، جس کی مقدار کسی کے لیے بھی چند سالوں سے زیادہ نہیں ہوتی، محض ایک سفر کا عارضی مرحلہ ہے ۔ا صل زندگی جو ہمیشہ قائم رہنے والی ہے ، آگے آنی ہے۔ موجودہ عارضی زندگی میں انسان خواہ کتنا ہی سرو سامان جمع کر لے اور چند سال کیسے ہی عیش کے ساتھ بسر کر لے، بہر حال اسے ختم ہونا ہے اور یہاں کاسب سرو سامان آدمی کو  یونہی چھوڑ کر  اٹھ جانا ہے ۔ اس مختصر سے عرصہ حیات کا عیش اگر آدمی کو اس قیمت پر  حاصل ہوتا ہو کہ آئندہ کی ابدی زندگی میں وہ دائماً خستہ حال اور مبتلائے مصیبت رہے، تو کوئی صاحبِ عقل آدمی یہ خسارے کا سودا نہیں کر سکتا۔ اس کے مقابلہ میں ایک عقل مند آدمی اس کو ترجیح دے گا کہ یہاں چند سال مصیبتیں بھگت لے ، مگر یہاں سے وہ بھلائیاں کما کر لے جائے جو بعد کی دائمی زندگی میں اس کے لیے  ہمشگی کی موجب بنیں۔
          دوسری بات یہ  ہے کہ اللہ کا دین انسان سے یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ وہ اس دنیا کی متاع ِ حیات سے استفادہ نہ کرے اور اس کی زینت کو خواہ مخواہ لات ہی ماردے۔ اس کا مطالب ی صرف یہ ہےکہ وہ دنیا پر آخرت کو ترجیح دے، کیونکہ دنیا فانی ہے اور آخرت باقی، اور دنیا کا عیش کم تر ہے اور آخرت کا عیش بہتر۔ اس لیے دنیا کی وہ متاع اور زینت تو آدمی کو ضرور حاصل کرنی چاہیے جو آخرت کی باقی رہنے والی زندگی میں اسے سرخرو کرے، یا کم از کم یہ کہ اسے وہاں کے ابدی خسارے میں مبتلا نہ کرے۔ لیکن جہاںمعاملہ مقابلے کا آپڑے ، یعنی دنیا کی کامیابی اور آخرت کی کامیابی ایک دوسرے  کی ضد ہو جائیں، وہاں  دینِ حق کا مطالبہ انسا ن یہ ہے ، اور یہی عقل سلیم کا مطالبہ  بھی ہے، کہ آدمی دنیا کو آخرت پر قربان کر دے اور اس دنیا کی عارضی متاع و زینت کی خاطر وہ راہ ہر گز اختیار نہ کرے جس سے ہمیشہ کے لیے اس کی عاقبت خراب ہوتی ہو۔

          ان دوباتوں کو نگاہ میں رکھ کر دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ اوپر کے فقروں میں کفار مکہ ے کیا فرماتا ہے۔ وہ یہ نہیں فرماتا کہ  تم اپنی تجارت لپیٹ دو۔ اپنے کاروبار ختم کر دو، اور ہمارے پیغمبر کو مان کر فقیر ہو جاؤ۔ بلکہ وہ یہ فرماتا ہے کہ یہ دنیا کی دولت جس پر تم ریجھے ہوئے ہو، بہت تھوڑی دولت ہے اور بہت تھوڑے دنوں کے لیے تم اس کا فائدہ اس حیاتِ دنیا میں اٹھا سکتے ہو۔ اس کے بر عکس اللہ کے ہاں جو کچھ ہے  وہ اس کی بہ نسبت کم و کیف(Quality اور Quantity ) میں بھی بہتر ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والا بھی ہے ۔ اس لیے تم سخت حماقت کرو  گے اگر اِس عارضی زندگی کی محدود نعمتوں سے متمتع ہونے کی خاطر وہ روش اختیار کرو جس کا نتیجہ آخرت کے دائمی خسارے کی شکل میں تمہیں بھگتنا پڑے۔ تم خود مقابلہ کر کے دیکھ لو کہ کامیاب آیا وہ شخص ہے جو محنت و جانفشانی کے ساتھ اپنے رب کی خدمت بجا لائے اور پھر ہمشہ کے لیے اس کے انعام سے  سرفراز ہو، یا وہ شخص جو گرفتار ہو کر مجرم کی حیثیت سے خدا کی عدالت میں پیش کیا جانے والا ہو اور گرفتاری سے پہلے محض چند روز حرم کی دولت سے مزے لوٹ لینے کا اس کو موقع مل جائے؟