اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر۸١

یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے  ا ن کے عذر کا پہلا جواب ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حرم جس کے امن و امان اور جس کی مرکزیت کی بدولت آج تم اس قابل ہوئے ہو کہ دنیا بھی کا مال تجارت اِس وادی غیر ذی زری میں کھچا چلا آرہا ہے ، کیا اس کو یہ امن اور یہ مرکزیت کا مقام تمہاری کسی تدبیر نے دیا ہے ؟ ڈھائی ہزار برس پہلے چٹیل پہاڑوں کے درمیان اس  بے  آب و گیاہ وادی میں ایک اللہ  کا بندہ اپنی بیوی اور ایک شیر خوار بچے کو لے کر آیا تھا۔ اس نے یہاں پتھر اور گارے کا ایک حجرہ تعمیر کر دیا اور پکار دیا کہ اللہ نے اے حرم بنایا ہے ، آؤ اس گھر کی طرف اور اس کا طواف کرو۔ اب یہ اللہ کی دی ہوئی برکت نہیں تو اور کیا ہے  کہ ۲۵ صدیوں سے یہ جگہ عرب کا مرکز بنی ہوئی ہے ، سخت بد امنی کے ماحول میں ملک کا صرف یہی گوشہ ایسا ہے جہاں امن میسر ہے، اس کو عرب کا بچہ بچہ احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے ، اور ہر سال ہزار ہا انسان  اس کے طواف کے لیے چلے آتے ہیں۔ اسی نعمت کا ثمرہ تو ہے کہ عرب کے سردار بنے ہوئے ہو اور دنیا کی تجارت کا ایک بڑا حصہ تمہارے قبضے میں ہے ۔ اب کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ جس خدا نے یہ نعمت تمہیں بخشی ہے۔ اس سے منحرف  اور باغی ہو کر تو تم پھول پھولو گے مگر اس کے دین کی پیروی اختیار کرتے ہی بر باد ہو جاؤ گے؟