اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر۸۰

یہ وہ بات ہے  جو کفارِ قریش اسلام قبول نہ کرنے کے لیے عذر کے طور پر پیش کرتے تھے۔ اور اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے کفر و انکار کا سب سے اہم بنیادی سبب یہی تھا۔ اس بات کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے ہمیں دیکھنا ہو گا کہ تاریخی طور پر اُس زمانے میں قریش کی پوزیشن کیا تھی جس پر ضرب پڑنے کا انہیں اندیشہ تھا۔
          قریش کو ابتداء جس چیز نے عرب میں اہمیت دی وہ یہ تھی کہ  ان کا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ہونا انسابِ عرب کی رو سے بالکل ثابت تھا، اور اس بنا پر ان کا خاندان عربوں کی نگاہ میں پیرزادوں کا خاندان تھا۔ پھر جب قُصّی بن کِلاب کے حسن تدبیر سے یہ لوگ کعبہ کے متولی ہوگئے اور مگہ ان کا مسکن بن گیا تو ان کی اہمیت پہلے سے بہت زیادہ ہوگئی۔ اس لیے کہ اب وہ عرب کا کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جو ان سے تعلقات نہ رکھتا ہو۔ اس مرکزی حیثیت سے فائدہ اٹھا کر قریش نے بتدریج تجارتی ترقی شروع کی اور خوش قسمتی سے روم و ایران کی سیاسی کشمکش نے ان کو بین الاقوامی تجارت میں ایک اہم مقام عطا کردیا۔ اُس زمانہ میں روم ویونان اور مصر و شام کی جتنی تجارت بھی چین، ہندوستان ، انڈونیشیا اور مشرقی افریقہ کے ساتھ تھی، اس کے سارے ناکے ایران نے روک دیے تھے۔ آخری راستہ بحرِ احمر کا رہ گیا تھا، سو یمن پر ایران کے قبضہ نے اسے بھی روک دیا۔ اس کے بعد کوئی صورت اس تجارت کو جاری رکھنے کے لیے اس کے سوا نہیں رہ گئی تھی کہ عرب کے تاجر ایک طرف رومی مقبوضات کا مال بحر عرب اور خلیج فارس کے بندرگاہوں پر پہنچائیں ، اور دوسری طرف انہی بندرگاہوں سے مشرقی اموالِ تجارت لے کر رومی مقبوضات میں پہنچیں۔ اس صورتِ حال نے مکہ کو بین الاقوامی تجارت کا ایک اہم مرکز بنا دیا۔ اس وقت قریش ہی تھے جنہیں  اس کا روبار کا قریب قریب اجارہ حاصل تھا۔ لیکن عرب کی طوائف الملو کی کے ماحول میں یہ تجارتی نقل و حرکت اس کے بغیر نہ ہوسکتی تھی کہ تجارتی شاہرا ہیں جن قبائل کے علاقوں سے گزرتی تھیں ان کے  ساتھ قریش کے گہرے تعلقات ہوں۔ سردارانِ قریش اس غرض کے لیے صرف اپنے مذہبی اثر پر اکتفا نہ کر سکتے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے تمام قبائل  کے ساتھ معاہدات کر رکھے تھے۔ تجارتی منافع میں سے بھی وہ ان کو حصہ دیتے تھے۔ شیوخِ قبائل اور با ثر سرداروں کو تحائف و ہدایا سے بھی خوش رکھتے تھے۔ اور سودی کا روبار کا بھی ایک جال انہوں نے پھیلا رکھا تھا جس میں قریب قریب تمام ہمسایہ قبائل کے تجار اور سردار جکڑے ہوئے تھے۔
          ان حالات میں  جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحید اٹھی تو دین آبائی کے تعصب سے بھی بڑھ کر جو چیزیں قریش کے لیے اُس کے خلاف وجہ ِ اشتعال بنی وہ یہ تھی کہ اس دعوت کی بدولت انہیں اپنا مفاد خطرے میں نظر آرہا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ معقول دلائل اور حجتوں سے شرک و بت پرستی غلط اور توحید صحیح بھی ہو تو اُس کو چھوڑنا اور اسے  قبول کر لینا ہمارے لیے تباہ کن ہے ۔ ایسا کرتے ہی تمام عرب ہمارے خلاف بھڑک اٹھے گا۔ ہمیں کعبہ کی تولیت سے بے دخل کر دیا جائے گا۔ بُت پرست قبائل کے ساتھ ہمارے وہ تمام معاہدانہ تعلقات ختم ہو جائیں  گے  جن کی وجہ سے ہمارے تجارتی قافلے رات دن عرب کے مختلف حصوں سے گزرتے ہیں ۔ اس طرح یہ دین ہمارے مذہبی رسُوخ و اثر کا بھی خاتمہ کر دے گا اور ہماری معاشی خوشحالی کا بھی ۔ بلکہ بعد نہیں  کہ تمام قبائلِ عرب ہمیں سرے سے مکہ ہی چھوڑدینے پر مجبور کردیں۔

          یہاں پہنچ کر دنیا پرستوں کی بے بصیرتی کا عجیب نقشہ انسان کے سامنے آتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار انہیں یقین دلاتے تھے کہ یہ کلمہ جو میں تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں اسے مان لو تو عرب و عجم تمہارے تابع ہو جائیں گے۔( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، صفحہ ۳۱۶ ۔۳۱۷)۔ مگر انہیں اس میں اپنی موت نظر آتی تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ جو دولت، اثر، رسوخ ہمیں آج حاصل ہے یہ بھی ختم ہو جائے گا۔ ان کو اندیشہ تھا کہ یہ کلمہ قبول کرتے ہی ہم اس سر زمین میں ایسے بے یارو مددگار ہو جائیں گے کہ چیل کوّے ہماری بوٹیاں نوچ کھائیں گے۔ ان کی کوتاہ نظر ی وہ وقت نہ دیکھ سکتی تھی جب چند ہی سال بعد تمام عرب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتحت ایک مرکزی سلطنت کا تابع فرمان ہونے والا تھا، پھر اسی نسل کی زندگی میں ایران، عراق، شام ، مصر، سب ایک ایک کر کے اس سلطنت کے زیر نگین ہو جانے والے تھے، اس قول پر ایک صدی گزر نے  سے بھی پہلے قریش ہی کے خلفاء سندھ سے  لے کر اسپین تک اور قفقاز سے لے کر یمن کے سواحل تک دنیا کے ایک بہٹ بڑے حصہ پر حکمرانی کرنے والےتھے۔