اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر۷۳

یعنی اس سے پہلے بھی ہم انبیاء اور کتبِ آسمانی کے ماننے والے تھے ، اس لیے اسلام کے سوا ہمارا کوئی اور دین نہ تھا۔ اور اب جو نبی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب لے کر آیا ہے اسے بھی ہم  نے مان لیا ، لہٰذا  درحقیقت  ہمارے دین میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے بلکہ جیسے ہم پہلے مسلمان تھے ویسے ہی اب بھی مسلمان ہیں۔
یہ قول اس بات کی صاف صراحت کردیتا ہے کہ اسلام صرف اُس دین کا نام نہیں ہےجسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں اور  ”مسلم“ کی اصطلاح کا اطلاق محض حضورؐ کے پیرووں تک محدود نہیں ہے ، بلکہ ہمیشہ سے تمام انبیاء کا دین یہی اسلام تھا اور ہر زمانہ میں ان سب کے پیرو مسلمان ہی تھے۔ یہ مسلمان اگر کبھی کافر ہوئے تو صرف اُس وقت جبکہ کسی بعد کے آنے والے نبی صادق کو ماننے سے انہوں نے انکار کیا۔ لیکن جو لوگ پہلے نبی کو مانتے تھے اور بعد کے آنے والے نبی پر بھی ایمان لے آئے اُن کے اسلام میں کوئی انقطاع نہیں ہوا۔ وہ جیسے مسلمان پہلے تھے ویسے ہی بعد میں رہے۔
تعجّب ہے کہ بعض بڑے بڑے اہلِ علم بھی اس حقیقت  کے ادراک سے عاجز رہ گئے ہیں، حتّٰی کہ اس صریح آیت کو دیکھ کر بھی ان کا اطمینان نہ ہُوا۔ علامہ سیوطی نے ایک مفصل رسالہ اس موضوع پر لکھا کہ مسلم کی اصطلاح صر ف اُمتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مختص  ہے۔ پھر جب  یہ آیت سامنے آئی تو خود فرماتے ہیں کہ میرے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے ۔ لیکن کہتے ہیں کہ میں نے پھر خدا سے دعا کی کہ اس معاملہ میں مجھے شرح صدر عطا کر دے۔ آخر کار اپنی رائے سے رجوع کرنے کے بجائے  انہوں نے اُس پر اصرار کیا اور اس آیت کی متعدّد تاویلیں کر ڈالیں جو ایک سے ایک بڑھ کر بے وزن ہیں۔ مثلاً ان کی ایک تاویل  یہ ہے کہ اِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلِہ مُسلِمِیْنَ کے معنی ہیں ہم قرآن کے آنے سے پہلے  ہی مسلم بن جانے کا عزم رکھتے تھے کیونکہ ہمیں اپنی کتابوں سے اس کے آنے کی خبر مل چکی تھی اور ہمارا ارادہ یہ تھا کہ جب وہ آئے گا تو ہم اسلام قبول کر لیں گے۔ دوسری تاویل یہ ہے کہ اس فقرے  میں مُسْلِمِیْن کے بعد بِہ مخذوف ہے ، یعنی پہلے ہی سے ہم قرآن کو مانتے تھے کیونکہ اس کے آنے  کی ہم توقع رکھتے تھے اور اس پر پیشگی ایمان لائے ہوئے تھے، اس لیے توراۃ و انجیل کو ماننے کی بنا پر نہیں بلکہ قرآن کو اس کے نزول سے پہلے برحق مان لینے کی بنا پر ہم مسلم تھے۔ تیسری تاویل یہ ہے کہ تقدیر الہٰی میں ہمارے لیے پہلے ہی مقدر ہو چکا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی آمد پر ہم اسلام قبول کر لیں گے اس لیے در حقیقت ہم پہلے ہی سے مسلم تھے۔ ان تاویلوں میں سے کسی کو دیکھ کر بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ اللہ کے عطا کردہ شرح صدر کا اس میں کوئی اثر موجود ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ قرآن صرف اسی ایک مقام پر نہیں بلکہ بیسیوں مقامات پر اِس اُصولی حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ اصل دین صرف  ”اسلام“ (اللہ کی فرمانبرداری ) ہے، اور خدا کی کائنات میں خدا کی مخلوق کے لیے اِس کے سوا کوئی دوسرا دین ہو نہیں سکتا، اور آغاز آفرینش سے جو نبی  بھی انسانوں کی ہدایت کے لیے آیا ہے وہ یہی دین لے کر آیا ہے، اور یہ کہ انبیاء علیہم السلام ہمیشہ خود مسلم رہے ہیں، اپنے پیرووں کو انہوں نے مسلم ہی بن کر رہنے کی تاکید کی ہے، اور ان کے وہ سب متبعین جنہوں نے نبوت کے ذریعہ سے آئے ہوئے فرمانِ خدا وندی کے آگے سرِ تسلیم خم کیا، ہر زمانے میں مسلم ہی تھے۔ اِس سلسلہ میں مثال کے طور پر صرف چند آیات ملاحظہ ہوں:

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۔ (آل عمران، آیت ۱۹
درحقیقت اللہ کے نزدیک تو دین صرف اسلام ہے۔

وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ۔ (آل عمران، آیت ۸۵)
اور جو کوئی اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرے وہ ہر گز قبول نہ کیا جائے گا۔
حضرت نوح علیہ السلام فرماتے ہیں:
اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللہِ وَاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔ (یونس، آیت ۷۲)
میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلموں میں شامل ہو کر رہوں۔

          حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کے متعلق ارشاد ہوتا ہے:
اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗ اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، وَوَصّٰی بِھَآ اِبْرٰھٖمُ بَنِیْہِ وَیَعْقُوْبُ، یٰبَنِیَّ اِنَّ اللہَ اصْطَفیٰ لَکُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْ تُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَo  اَمْ کُنْتُمْ شُھَدَآءَ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْ بَ الْمَوْتُ اِذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْم بَعْدِیْ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰھَکَ وَاِلٰہَ اٰبَآ ئِکَ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰھًا وَّاحِدًا وَّنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ o (البقرہ۔ آیت ۱۳۱ تا ۱۳۳)
جبکہ اس کے ربّ نے اس سے کہا کہ مسلِم (تابع فرمان) ہو جا، تو اس نے کہا  میں مسلم ہو گیا ربّ العالمین کے لیے۔ اور اسی چیز کی وصیّت کی ابراہیمؑ نے اپنی اولاد کو اور یعقوب ؑ نے بھی، کہ اے میرے بچو! اللہ نے تمہارے لیے اس دین کو پسند کیا ہے لہٰذا تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔ کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب ؑ کی وفات کا وقت آیا؟ جبکہ اس نے اپنی اولاد سے  پوچھا کس کی بندگی کرو گے تم میرے بعد؟ انہوں نے جواب دیا ہم بندگی کریں گے آپ کے معبود اور آپ کے با پ دادا ابراہیم ؑ اور اسمٰعیلؑ اور اسحٰق ؑ کے معبود کی ، اس کو اکیلا معبود مان کر، اور ہم اسی کے مسلم ہیں۔

مَا کَانَ اِبْرٰھِیْمُ یَھُوْدِیًّا وَّلَا نَصْرَ انِیًّا وَّلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا،  (آل عمران، آیت ۶۷)
ابراہیمؑ نہ یہودی تھا نہ نصرانی ۔ بلکہ وہ یکسو مسلم تھا۔

          حضرت ابراہیم ؑ و اسمٰعیلؑ خود دعا مانگتے ہیں:
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ۔ (البقرہ۔ آیت ۱۲۸)
اے ہمارے ربّ ، ہم کو اپنا مسلم بنا اور ہماری نسل سے ایک اُمت پیدا کر جو تیری مسلم ہو۔

          حضرت لُوط ؑ کے قصّے میں ارشاد ہوتا ہے:
فَمَا وَجَدْ نَا فِیْھَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ ۔(الذاریات۔ آیت ۳۶)
ہم نے قومِ لوط کی بستی میں ایک گھر کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا۔

حضرت یوسفؑ بارگاہِ ربّ العزّت میں عرض کرتے ہیں:
تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِا الصّٰلِحِیْنَ o (یوسف۔ آیت ۱۰۱)
مجھ کو مسلم ہونے کی حالت میں موت دے اور صالحوں کے ساتھ ملا۔

          حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم سے کہتے ہیں:
یٰقَوْمِ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِا للہِ فَعَلَیْہِ تَوَکَّلُوْآ اِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَo (یونس۔ آیت ۸۴)
اے میری قوم کے لوگو، اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تو اسی پر بھروسہ  کرو اگر تم مسلم ہو۔

          بنی اسرائیل کا اصل مذہب یہودیت نہیں بلکہ اسلام تھا، اس بات کو دوست اور دشمن سب جانتے تھے ۔ چنانچہ فرعون سمندر میں ڈوبتے وقت آخری کلمہ جو کہتا ہے وہ یہ ہے:
اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْآ اِسْرَآءِیْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ o (یونس۔ آیت ۹۰)
میں مان گیا کہ کوئی معبود اُس کے سوا نہیں ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں مسلموں میں سے ہوں۔

اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰۃَ فِیْھَا ھُدًی وَّ  نُوْرٌ، یَحْکُمُ بِھَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْ ا لِلَّذِیْنَ ھَادُوْا ، (المائدہ۔ آیت ۴۴)
ہم نے توراۃ نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی ، اسی کے مطابق وہ نبی جو مسلم تھے اُن لوگوں کے معاملات کے فیصلے کرتے تھے جو یہودی ہو گئے تھے۔

          یہی حضرت سلیمان علیہ السلام کا دین تھا، چنانچہ ملکۂ سبا ان پر ایمان لاتے ہوئے کہتی ہے:
اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (النمل۔ آیت ۴۴)
میں سلیمانؑ کے ساتھ ربّ العالمین کی مسلم ہو گئی ۔

          اور یہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے حواریوں کا دین تھا:
وَاِذْ اَوْ حَیْتُ اِلَی الْحَوَارِیِّیْنَ اَنْ اٰمَنُوْا بِیْ وَبِرَسُوْلِیْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَاشْھَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ o (المائدہ۔آیت ۱۱۱)
اور جبکہ میں نے حواریوں پر وحی کی کہ ایمان لاؤمجھ پر اور میرے رسول پر تو انہوں نے کہا ہم ایمان لائے اور گواہ رہ کہ ہم مسلم ہیں۔

اس معاملہ میں اگر کوئی شک اِس بنا پر کیا جائے کہ عربی زبان کے الفاظ ”اسلام“ اور ”مسلم“ ان مختلف ملکوں اور مختلف زبانوں میں کیسے مستعمل ہوسکتے تھے، تو ظاہر ہے کہ یہ محض ایک نادانی کی بات ہو گی۔ کیونکہ اصل اعتبار عربی کے اِن الفاظ کا نہیں بلکہ اُس معنی کا ہے جس کے لیے یہ الفاظ عربی میں مستعمل ہوتے ہیں۔ دراصل جو بات اِن آیات میں بتائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا کی طرف سے آیا ہوا حقیقی دین مسیحیت یا موسویت یا محمدیت نہیں ہے بلکہ انبیاء اور کتبِ آسمانی کے ذریعہ سے آئے ہوئے فرمانِ خداوندی کے آگے سرِ اطاعت جھکا دینا ہے اور یہ رویّہ جہاں جس بندۂ خدا نے بھی جس زمانے میں اختیار کیا ہے وہ ایک ہی عالمگیر ازلی و ابدی دینِ حق کا متبع ہے۔ اس دین کو جن لوگوں نے ٹھیک ٹھیک شعور اور اخلاص کے ساتھ اختیار کیا ہے ان کے لیے موسیٰؑ کے بعد مسیحؑ کو اور مسیحؑ کے بعد محمد صلی اللہ علیہ و علیہم اجمعین کو ماننا تبدیل ِ مذہب نہیں بلکہ حقیقی دین کے اتباع کا فطری و منطقی تقاضا ہے۔ بخلاف اس کے جو لوگ انبیاء علیہم السلام کے گروہوں میں بے سوچے سمجھے گُھس آئے یا پیدا ہو گئے ، اور قومی و نسلی اور گروہی تعصبات نے جن کے لیے اصل مذہب کی حیثیت اختیار کر لی، وہ بس یہودی یا مسیحی بن کر رہ گئے اور  محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے آنے پر ان کی جہالت کی قلعی کھل گئی۔ کیونکہ انہوں نے اللہ کے آخری نبی کا  انکار کر کے نہ صرف یہ کہ آئندہ کے لیے مسلم رہنا قبول نہ کیا، بلکہ اپنی اس حرکت سے یہ ثابت کر دیا کہ حقیقت  میں  وہ پہلے بھی  ”مسلم“ نہ تھے، محض ایک نبی یا  بعض انبیاء کی شخصی گرویدگی میں مبتلا تھے  ، یا آباو اجداد کی اندھی تقلید کو دین بنائے بیٹھے تھے۔