یعنی اس سے پہلے بھی ہم انبیاء اور کتبِ آسمانی کے ماننے والے تھے ، اس لیے اسلام کے سوا ہمارا کوئی اور دین نہ تھا۔ اور اب جو نبی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب لے کر آیا ہے اسے بھی ہم نے مان لیا ، لہٰذا درحقیقت ہمارے دین میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے بلکہ جیسے ہم پہلے مسلمان تھے ویسے ہی اب بھی مسلمان ہیں۔ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۔ (آل عمران، آیت ۱۹ وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ۔ (آل عمران، آیت ۸۵) حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کے متعلق ارشاد ہوتا ہے: حضرت ابراہیم ؑ و اسمٰعیلؑ خود دعا مانگتے ہیں: حضرت لُوط ؑ کے قصّے میں ارشاد ہوتا ہے: حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم سے کہتے ہیں: بنی اسرائیل کا اصل مذہب یہودیت نہیں بلکہ اسلام تھا، اس بات کو دوست اور دشمن سب جانتے تھے ۔ چنانچہ فرعون سمندر میں ڈوبتے وقت آخری کلمہ جو کہتا ہے وہ یہ ہے: اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰۃَ فِیْھَا ھُدًی وَّ نُوْرٌ، یَحْکُمُ بِھَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْ ا لِلَّذِیْنَ ھَادُوْا ، (المائدہ۔ آیت ۴۴) یہی حضرت سلیمان علیہ السلام کا دین تھا، چنانچہ ملکۂ سبا ان پر ایمان لاتے ہوئے کہتی ہے: اور یہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے حواریوں کا دین تھا: |