اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر۷۲

اس سے یہ مراد  نہیں ہے کہ تمام اہلِ کتاب (یہودی اور عیسائی) اس پر ایمان لاتے ہیں۔ بلکہ  یہ اشارہ دراصل اُس واقعہ کی طرف ہے جو اس سورہ کے نزول کے زمانہ میں پیش آیاتھا، اور اس سے اہلِ مکہ کو شرم دلانی مقصود ہے کہ تم اپنے گھر ائی ہوئی نعمت کو ٹھکرا رہے ہو حالانکہ دور دور کے لوگ اس کی خبر سن کر آ رہے ہیں اور اُس قدر پہچان کرا س سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔
           اس واقعہ کو ابن ہشام اور بیقہی وغیرہ نے محمد بن اسحاق کے حوالہ سے اس طرح روایت کیا ہے کہ ہجرتِ حبشہ کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور دعوت کی خبریں حبش کے ملک میں پھیلیں تو وہاں سے ۲۰ کے قریب عیسائیوں کا ایک وفد تحقیقِ حال کے لیے مکہ معظمہ آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مسجدِ حرام میں ملا۔ قریش کے بہت سے لوگ بھی یہ ماجرا دیکھ کر گردو پیش کھڑے ہوگئے۔ وفد کے لوگوں نے حضورؐ ے کچھ سوالا ت کیے جن کاآپ نے جواب دیا۔ پھر آپؐ نے ان کو اسلام کی طرف دعوت دی اور قرآن مجید کی آیات ان کے سامنے پڑھیں۔ قرآن سن کر ان کی آنکھوں سے  آنسوں جاری ہوگئے اور انہوں نے اس کے کلام اللہ ہونے کی تصدیق کی اور حضورؐ پر ایمان لے آئے۔ جب مجلس برخاست ہوئی تو ابو جہل اور اس کے چند ساتھیوں نے ان لوگوں کو راستہ میں  جا لیااور انہیں سخت ملامت کی کہ ”بڑے نامراد ہو تم لوگ، تمہارے ہم مذہب لوگوں نے تم کو اس لیے بھیجا تھا کہ تم اِس شخص کے حالا ت کی تحقیق کر کے آؤ اور انہیں ٹھیک ٹھیک خبر دو، مگر تم ابھی اِس کے پاس بیٹھے ہی تھے کہ اپنا دین چھوڑ کر اس پر ایمان لے آئے۔ تم سے زیادہ احمق گروہ تو کبھی ہماری نظر سے نہیں گزرا“۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ”سلام ہے بھائیوں تم کو۔ ہم تمہارے ساتھ جہالت بازی نہیں کر سکتے۔ ہمیں ہمارے طریقے پر چلنے دو اور تم اپنے طریقے پر چلتے رہو۔ ہم اپنے آپ کو جان بوجھ کر بھلائی سے محروم نہیں رکھ سکتے“(سیرت ابن ہشام ج۲، ص۳۲۔ البِدایہ و النِّہایہ، ج۳، ص۸۲)۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم، الشعراء، حاشیہ ۱۲۳)۔