اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر۵۳

یہ اسی قسم کی ذہنیت تھی جیسی موجودہ زمانے کے روسی کمیونسٹ ظاہر کر رہے ہیں ۔ یہ اسپٹنک اور ٹونِک چھوڑ کر دنیا کو خبر دیتے ہیں کہ ہماری اِن گیندوں کو اوپر کہیں خدا نہیں ملا۔ وہ بے وقوف ایک مینار ے پر چڑھ کر خدا کو جھانکنا چاہتا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ گمراہ لوگوں کے ذہن کی پرواز ساڑھے تین ہزار برس پہلے جہاں تک تھی آج بھی وہیں تک ہے۔ اس اعتبار سے ایک اُنگل بھر ترتی بھی وہ نہیں کر سکتے ہیں۔ معلوم میں کس احمق نے اِن کو یہ خبر دی تھی کہ خدا پرست لوگ جس ربّ العالمین کو مانتے ہیں وہ اُن کے عقیدے کی رو سے اوپر کہیں بیٹھا ہوا ہے، اور اِس اتھاہ کائنات میں زمین سے چند ہزار فیٹ یا چند لاکھ میل اوپر اُٹھ کر اگر وہ انہیں نہ ملے تو یہ بات گویا بالکل ثابت ہو جائے گی   کہ وہ کہیں موجودہ نہیں ہے۔
          قرآن یہاں نہیں کہتا کہ فرعون نے فی الواقع ایک عمارت اس غر ض کے لیے بنوائی تھی  اور اس پر چڑھ کر خدا کو جھانکنے کی کوشش بھی کی تھی۔ بلکہ وہ اُس کے صرف اس قول کو نقل کرتا ہے۔ اِس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے عملاً یہ حماقت نہیں کی تھی۔ اِن باتوں سے اس کا مدعا صرف بے وقوف بنا نا تھا۔
           یہ امر بھی واضح طور پر معلوم نہیں ہوتا کہ ف رعون آیا فی الواقع خدا وندِ عالم کی ہستی کا منکر تھا یا محض ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر دہریت کی باتیں کرتا تھا۔ اس کے اقوال اس معامہ میں اُسی ذہنی  الجھاؤ کی نشان دہی کرت ہیں جو روسی کمیونسٹوں کی باتوں میں پایا جاتا ہے ۔ کبھی تو  وہ آسمان پر چڑھ کر دنیا کو بتانا چاہتا تھا کہ میں اوپر دیکھ  آیا ہوں، موسیٰ کا خدا کہیں نہیں ہے ۔ اور کبھی وہ کہتا فَلَوْْلَآ اُلْقِیَ عَلَیْہِ اَسْوِ رَۃ مِّنْ ذَھَب اَوْجَآ ءَ مَعَہُ الْمَلٰئِکَۃُ مُقْتَرِنِیْنَ”اگر موسیٰ واقعی خدا کا بھیجا ہوا ہے تو کیوں نہ اُ س کے لیے سونے کے کنگن اتارے گئے، یا اس  کی اردلی میں ملائکہ  نہ آئے“؟ یہ باتیں روس کے ایک سابق وزیر اعظم خرو شچیف کی باتوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں جو کبھی خدا کا انکار کرتا اور کبھی بار بار خدا کا نام لیتا اور اس کے نام کی قسمیں کھاتا تھا۔ ہمارا قیاس یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے خلفاء کا دورِ اقتدار گزر جانے کے بعد جب مصر میں قبطی قوم پرستی کا زور ہوا اور ملک میں اِسی نسلی و  وطنی تعصّب کی بنیاد پر سیاسی انقلاب رونما  ہو گیا تو نئے لیڈروں نے اپنے قوم ستانہ جوش میں اُس خدا کے خلاف بھی بغاوت کر دی جس کو ماننے کی دعوت حضرت یوسفؑ اور ان کے پیرو اسرائیلی اور مصری مسلمان دیتے تھے ۔ انہوں  نے یہ سمجھآ کہ خدا کو مان کر ہم یوسفی تہذیب کے اثر سے  نہ نکل سکیں گے، اور یہ تہذیب باقی رہی تو ہمارا سیاسی اثر بھی مستحکم نہ ہو سکے گا۔ وہ خدا کے اقرار اور مُسْلم اقتدار کو لازم و ملزوم سمجھتے تھے، اس لیے ایک پیچھتا چھڑانے کی خاطر دوسرے کا انکار ان کے  نزدیک ضرور ی تھا، اگر چہ اس کا اقرار ان کے دل کی گہرائیوں سے کسی طرح نکالے نہ نکلتا تھا۔