اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر۴۹

اصل الفاظ ہیں سِحْرٌ مُّفْتَرًی ”افترا کیا ہوا جادو“۔اس افترا کو اگر جھوٹ کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ یہ لاٹھی کا اژدہا بننا اور ہاتھ کا چمک اٹھنان نفس شے میں حقیقی تغیر نہیں ہے بلکہ محض ایک نمائشی شعبدہ ہے جسے یہ شخص معجزہ کہہ کر ہمیں دھوکا دے رہا ہے ۔ اور اگر اسے بناوٹ کے معنی میں لیا جائے تو مراد یہ ہوگی کہ یہ شخص کسی کر تب سے ایک ایسی چیز بنا لا یا ہے جو دیکھنے میں لاٹھی معلوم ہوتی ہے مگر جب یہ اسے پھینک دیتا ہے تو سانپ نظر آنے لگتی ہے ۔ اور اپنے ہاتھ پر بھِ اس نے کوئی ایسی چیز مل لی ہے کہ اس کی بغل سے نکلنے کے بعد وہ یکایک چمک اٹھتا ہے ۔ یہ مصنوعی طلسم ا نے خود تیار کیا ہے، اور ہمیں یقین یہ دلارہا ہے کہ معجزے ہیں جو خدا نے اسے عطا کیے ہیں۔