اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر۳۴

یعنی ہم عورتیں ہیں، ان چرواہوں سے مزاحمت اور کشمکش کر کے اپنے جانوروں کو پانی پلانا ہمارے بس میں نہیں ہے۔ والد ہمارےاس قدر سن رسیدہ ہیں کہ وہ خود یہ مشقت اُٹھا نہیں سکتے۔ گھر میں کوئی دوسرا مرد بھی نہیں ہے۔ اس لیے ہم عورتیں ہی یہ کام کرنے نکلتی ہیں اور جب تک سب چروا ہے اپنے جانوروں کو پانی پلا کر چلے نہیں جاتے ، ہم کو مجبوراً انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ اس سارے مضمون کو ا ن خواتین نے صرف ایک مختصر سے فقرے میں ادا کر دیا، جس سے ان کی حیا داری کا اندازہ ہوتا ہے کہ ایک غیر مرد سے زیادہ بات بھی نہ کرنا چاہتی تھیں، مگر یہ بھی پسند نہ کرتی تھی کہ یہ اجنبی ہمارے خاندان کے متعلق کوئی غلط رائے قائم کر لے اور اپنے ذہن میں یہ خیال کر ے کہ کیسے لوگ ہیں جن کے مرد گھر بیٹھے رہے اور اپنی عورتوں کو اس کام کے لیے باہر بھیج دیا۔
          ان خواتین کے والد کے متعلق ہمارے ہاں کی روایات میں یہ بات مشہور ہو گئی ہے کہ وہ حضرت شعیب علیہ السلام تھے۔ لیکن قرآن مجید میں اشارۃ وکنا یتہً بھی کوئی بات ایسی نہیں کہی گئی ہے جس سے یہ سمجھا جا سکے کہ وہ حضرت شعیبؑ ہی تھے۔ حالانہ شعیب علیہ السلام کی شخصیت قرآن میں ایک معروف شخصیت ہے ۔ اگر ان خواتین کے والد وہی ہوتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ یہاں اس کی تصریح نہ کر دی جاتی۔ بلا شبہ بعض احادیث میں ان کے نام کی تصریح ملتی ہے ، لیکن علامہ ابن جریر اور ابن کثیر دونوں اس پر متفق ہیں کہ ان میں سے کسی کی سند بھی صحیح نہیں ہے۔ اسی لیے ابن عباس  ، حسن بصری، ابو عبیدہ اور سعید جُبَیر جیسے اکا بر مفسرین نے بنی اسرائیل کی روایات پر اعتماد کر کے ان بزرگ کے وہی نام بتائے ہیں جو تلمود وغیرہ میں آئے ہیں ۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسم ِ شعیب کی تصریح ہوتی تو یہ حضرات کوئی دوسرا نام نہ لے سکتے تھے۔
          بائیبل میں ایک جگہ ان بزرگ کا نام رعوایل اور دوری جگہ یَتْر و بیان کیا گیا ہے  اور بتایا گیا ہے کہ وہ مَدْین کے کاہن تھے۔ (خروج باب۱۶:۲۔۱۸۔باب۱:۳۔باب۵:۱۸)۔تلمودی لڑیچر میں رعوایل ، یتھرو اور حوباب تین مختلف نام بتائے گئے ہیں۔ موجودہ زمانے کے علاما ئے یہود  کا خیال یہ ہے کہ یتھرو ہزار کسی لنسی کا ہم معنی لقب تھا اور اصل نام رعوایل یا حوباب تھا۔ اسی طرح لفظ کا ہن(Kohen Midian ) کی تشریح میں بھی علماء یہود کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض اس کو پر وہت(Priest ) کا ہم معنی بتاتے ہیں اور بعض رئیس یا امیر (Prince ) کا۔
          تلمود میں ان کے جو حالات بیان کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں کہ حضرت موسیٰؑ کی پیدائش سے پہلے فرعون کے ہاں ان کی آمدروفت تھی اور وہ ان کے علم اور اصابت رائے پر اعتماد رکھتا تھا۔ مگر جب بنی اسرائیل کا استیصال کرنے کے لیے مصر کی شاہی کو نسل میں مشورے  ہونے لگے اور ان کے لڑکوں  کو پیدا ہوتے ہی قتل کر دینے کا فیصلہ کیا گیا تو انہوں نے فرعون کو اس غلط کام سے روکنے کی  کوشش کی، اسے اس ظلم  کے بُرے نتائج سے ڈرایا اور رائے دی کہ  اگر ان لوگوں کا وجود آپ کے لیے ناقابلِ برداشت ہے تو انہیں ان کے باپ دادا کے ملک کنعان کی طرف نکال دیجیے۔ اس پر فرعون ان سے ناراض ہوگیا اور اس نے انہیں ذلت کے ساتھ اپنے دربار سے نکلوادیا۔ اس وقت سے وہ اپنے ملک مدین ہی میں اقامت گُزیں ہوگئے تھے۔
          ان کے مذہب کے متعلق قیاس یہی ہے کہ حضرت موسیٰؑ کی طرح وہ بھی دینِ ابراہیمی کے پیرو تھے۔ کیونکہ جس طرح حضرت موسیٰ اسحاق بن ابراہیم(علیھما السلام) کی اولاد تھے اسی طرح وہ مدیان بن ابراہیم کی اولاد میں سے تھے۔ یہی تعلق غالباً اس کا موجب ہوا ہوگا کہ انہوں نے فرعون کو بنی اسرائیل پر ظلم کرنے سے روکا اور اس کی ناراضی مول لی۔ مفسر نیسا بوری نے حضرت حسن بصر ی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ انہ کان رجلا مسلما قَبِل الدین مِن شعیب۔(وہ ایک مسلما ن آدمی تھے۔ حضرت شعیبؑ کا دین انہوں نے قبول کر لیا تھا) ۔ تلمود بیان کیا گیا ہے کہ وہ مدیانیوں کی بت پرستی کو علانہ حماقت قرار دیتے تھے، اس وجہ سے اہل ِ مدین ان کے مخالف ہوگئے تھے۔