اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر۲٦

 یعنی حضرت موسیٰؑ کا یہ عہد بہت وسیع الفاظ میں ہے۔ اس سے مراد صرف یہی نہیں ہے کہ میں کسی مجرم فرد کا مدد گار نہیں بنوں گا، بلکہ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ میری امداد و اعانت کبھی ان لوگوں کے ساتھ نہ ہوگی جو دنیا میں ظلم وستم کرتے ہیں۔ ابن جریر اور متعدد دوسرے مفسرین نے اس کا یہ مطلب بالکل ٹھیک لیا ہے کہ اسی روز حضرت موسیٰؑ نے فرعون اور اس کی حکومت سے قطع تعلق کر لینے کا عہد کر لیا، کیونکہ وہ ایک ظالم حکومت تھی اور اس نے خدا کی زمین پر ایک مجرمانہ نظام قائم کر رکھا تھا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ کسی ایمان دار آدمی کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ ایک ظالم سلطنت کا کَل پُرزہ بن کر رہے  اور اس کی حشمت و طاقت میں اضآفے کا موجب بنے۔
          ایک اور کاتب نے عامر شَعبِی سے پوچھا”اے ابو عمر و ، میں بس احکام لکھ کر جاری کرنے کا ذمہ دار ہوں ، فیصلے کرنے کا ذمہ دار نہیں ہوں، کیا یہ رزق میرے لیے جائز ہے“؟ انہوں نے کہا”ہو سکتا ہے کہ کسی بے گناہ کے قتل کا فیصلہ کیا جائے اور وہ تمہارے قلم سے جاری ہو۔ ہو سکتا ہے کہ کسی کا مال ناحق ضبط کیا جائے ، یا کسی کا گھر گرانے کا حکم دیا جائے اور وہ تمہارے  قلم سے جاری ہو“۔ پھر امام موصوف نے یہ آیت پڑھی جسے سنتے ہی کاتب نے کہا”آج کے بعد میرا قلم بنی امیّہ کے احکام جاری کرنے میں استعمال نہ ہوگا“۔امام  نے کہا”پھر اللہ بھی تمہیں رزق سے محروم نہ فرمائے گا“۔
          ضَحّاک کو تو عبد الرحمٰن بن مسلم نے صرف اس خدمت پر بھیجنا چاہا تھآ کہ وہ بخارا کے لوگوں کی تنخواہیں جا کر بانٹ آئیں، مگر انہوں نے اس سے بھی انکار کر دیا۔ ان کے دوستوں نے کہا آخر اس میں کیا حرج  ہے؟ انہوں نے کہا میں ظالموں کے کسی کام میں بھی مدد گار نہیں بننا چاہتا (روحالمعافی، ج۲۰،ص۴۹)۔

          امام ابو حنیفہ کا یہ واقعہ ان کے تمام مستند سوانح نگاروں ۔ الموفَّق الملکی، ابن البَزَّاز الکَرْوَرِی، ملّا علی قاری دغیر ہم نے لکھا ہے کہ انہی کی تلقین پر منصور کے کمانڈر انچیف حسن بن قَحطُبہ نے  یہ کہہ کر اپنے عہد ے سے استعفا دے دیا تھا کہ آج تک میں نے آپ کی سلطنت کی حمایت کے لیے جو کچھ کیا ہے یہ اگر خدا کی راہ میں تھا تو میرے لیے بس اتنا ہی کافی ہے ، لیکن اگر یہ ظلم کی راہ میں تھا تو میں اپنے نامہ اعمال میں مزید جرائم کا اضافہ نہیں کرنا چاہتا۔