اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر١۲

اس بیان سے جو صورتِ معاملہ صاف سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ تابوت یا ٹوکرا دریا میں بہتا ہوا جب اس مقام پر پہنچا جہاں فرعون کے محلات تھے، تو فرعون کے خدّام نے اسے پکڑ لیااور لے جا کر بادشاہ اور ملکہ کے سامنے پیش کر دیا۔ ممکن ہے کہ بادشاہ اور ملکہ خود اس وقت دریا کے کنارے سیر میں مشغول ہوں اور ان کی نگاہ اس ٹوکرے  پر پڑی ہو اور انہی کے حکم سے وہ نکالا گیا ہو۔ اس میں ایک بچہ پڑا ہوا دیکھ کر بآسانی یہ قیاس کیا جا سکتا تھا کہ یہ ضرور کسی اسرائیلی کا بچہ ہے ، کیونکہ وہ اُن محلوں کی طرف سے آرہا تھا جن میں بنی اسرائیل رہتے تھے، اور انہی کے بیٹے اس زمانے میں قتل کیے جا رہے تھے، اور انہی کے متعلق یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ کسی نے بچے کو چھپا کر کچھ مدت تک پالا ہے اور پھر جب وہ زیادہ دیر چُھپ نہ سکا تو اب اسے اس امید پر دریا  میں ڈال دیا ہے کہ شاید اسی طرح اس کی جان بچ جائے اور کوئی اسے نکال کر پال لے۔ اسی بنا پر کچھ ضرورت سے زیادہ وفادار غلاموں نے عرض کیا کہ حضور اسے فوراً قتل کر ا دیں، یہ بھی کوئی بچہ  افعیٰ ہی ہے ۔ لیکن فرعون کی بیوی آخر عورت تھی، اور بعید نہیں کہ بے اولاد ہو۔ پھر بچہ بھی بہت پیار صورت کا تھا، جیسا کہ سورہ طٰہٰ میں اللہ تعالیٰ خود حضرت موسیٰؑ کو بتاتا ہے کہ وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ،(میں نے اپنی طرف سے تیرے اوپر محبت ڈالی دی تھی)یعنی تجھے ایسی موہنی صورت دی تھی کہ دیکھنے والوں کو بے اختیار تجھ پر پیا رآجاتا تھا ۔ اس لیے اس عورت سے نہ رہا گیا  اور اس نے کہا کہ اسے قتل نہ کرو بلکہ لے کر پال لو۔ یہ جب ہمارے ہاں پرورش پائے گا اور ہم اسے اپنا بیٹا بنا لیں گے تو اسے کیا خبر ہوگی کہ میں اسرائیلی ہوں۔ یہ اپنے آپ کو آلِ فرعون ہی کا ایک فرد سمجھے گا اور اس کی قابلیتیں بنی اسرائیل کے بجائے ہمارے کا م آئیں گی۔

          بائیبل اور تلمود کا بیان ہے کہ وہ عورت جس نے حضرت موسیٰ ؑ کو پالنے اور بیٹا بنانے  کے لیے کہا تھا فرعون کی بیٹی تھی۔ لیکن قرآن صاف الفاظ میں اسے ”امرأ ۃ فرعون “(فرعون کی بیوی)کہتا ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ صدیوں بعد مرتب کی ہوئی زبانی روایات کے مقابلے میں براہِ راست اللہ تعالیٰ کا بیان ہی قابلِ اعتماد ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ خواہ مخواہ اسرائیلی روایات سے مطابقت پیدا کرنے کی خاطر عربی محاورہ استعمال کے خلاف امرأ ۃ فرعون کے معنی ”فرعون کے خاندان کی عورت “کیے جائیں۔