اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر۸۵

الو ہیت کے بارے میں ان لوگوں کی بنیادی غلطیوں پر متنبہ کرنے کے بعد اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ جو ان شدید گمراہیوں میں پڑے ہوئے ہیں اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ غور فکر کرنے کے بعد یہ کسی دلیل دیر ہا ن سے اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ خدائی میں درحقیقت کچھ دوسری ہستیاں اللہ تعالیٰ کی شریک ہیں ۔ بلکہ اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کبھی سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر ہی نہیں کیا ہے۔ چونکہ یہ لوگ آخرت سے بے خبر ہیں۔ یا اس کی طرف سے  شک میں ہیں۔ یا اس سے اندھے بنے ہوئے ہیں، اس لیے فکرِ عقبٰی سے بے نیازی نے ان کے اندر سراسر ایک غیر ذمہ دارانہ رویّہ پیدا کر دیا ہے۔ یہ کائنات اور خود اپنی زندگی کے حقیقی مسائل کے بارے میں سرے سے کوئی سنجیدگی رکھتے ہی نہیں۔ ان کو اس کی پروا ہی نہیں ہے کہ حقیقت کیا ہے اور ان کا فلسفہ حیات اُس حقیقت سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک آخر کار مشرک اور دہریے اور موحد اور مُشکک سب کو مر کر مٹی ہو جانا ہے  اور کسی چیز کا بھی کوئی نتیجہ نکلنا نہیں ہے۔

          آخرت کا یہ مضمون اس سے پہلے کی آیت کے اِس فقرے سے نکلا ہے کہ ”وہ نہیں جانتے کہ کب وہ اُٹھائے جائیں گے“۔اُس فقرے میں تو یہ بتایا گیا تھا کہ جن کو معبود بنایا جاتا ہے۔۔۔۔اور ان میں فرشتے ، جِن ، انبیاء، اور اولیاء سب شامل تھے۔۔۔۔ ان میں سے کوئی بھی آخرت کے وقت سے واقف نہیں ہے کہ وہ کب آئے گی۔ اس کے بعد اب عام مشرکین و کفار کے بارے میں تین باتیں ار شاد ہوئی ہیں۔ اوّل یہ کہ وہ سرے سے یہی نہیں جانتے کہ آخرت کبھی ہو گی بھی یا نہیں ۔ دوسرے یہ کہ ان کی یہ بے خبری اس بنا پر  نہیں ہے  کہ انہیں اس کی اطلاع ہی کبھی نہ دی گئی ہو،بلکہ اس بنا پر ہے کہ جو خبر انہیں دی گئی اس پر انہوں نے یقین نہیں کیا بلکہ اس کی صحت میں شک کرنے لگے ۔ تیسرے یہ کہ انہوں نے کبھی غور و خوض کر کے اُن دلائل کو جانچنے کی زحمت ہی نہیں اٹھائی جو آخرت کے وقوع کے بارے میں پیش کیے گئے ، بلکہ اس ک طرف سے اندھے بن کر رہنے ہی کو انہوں نے ترجیح دی۔