اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر۸۳

اوپر تخلیق ، تدبیر اور رزاقی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے الٰہِ واحد( یعنی اکیلے خدا اور اکیلے مستحق عبادت) ہونے پر استدلال کیا گیا تھا ۔ اب خدا کی ایک اور اہم صفت ، یعنی علم کے لحاظ سے بتایا جا رہا ہے کہ اس میں بھی اللہ تعالیٰ لا شریک ہے۔ آسمان و زمین میں جو بھی مخلوقات ہیں ، خواہ فرشتے ہو یا جن یا انبیاء اور اولیاء یا دوسرے انسان اور غیر انسان، سب کا علم محدود ہے ۔ سب سے کچھ نہ کچھ پوشیدہ ہے  سب کچھ جاننے والا اگر کوئی ہے تو وہ صرف اللہ تعالی ٰ ہے  جس سے  اس کائنات کی کوئی چیز اور کوئی بات پوشیدہ نہیں ، جو ماضی و حال اور مستقبل سب کو جانتا ہے۔
          غیب کے معنی مخفی ، پوشیدہ اور مستور کے ہیں۔ اصطلاحاً اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جو معلوم نہ ہو ، جس تک ذرائع معلومات کی رسائی نہ ہو۔ دنیا میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو  فرداً فرداً بعض انسانوں کے علم میں اور بعض کے علم میں نہیں ہیں۔ اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو بحیثیت مجموعی پوری نوعِ انسانی کے علم میں نہ کبھی تھی ، نہ آج ہیں نہ آئندہ کبھی آئیں گی۔ ایسا ہی معاملہ جنوں اور فرشتوں  اور دوسری مخلوقات کا ہے  کے بعض چیزیں ان میں سے کسی سے  مخفی اور کسی کو معلوم ہیں ، اور بے شمار چیزیں ایسی ہیں جو ان سب سے مخفی ہیں اور کسی کو بھی معلوم نہیں ۔ یہ تمام اقسام کے غیب  صرف ایک ذات پر روشن ہیں ، اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ اس کے لیے کوئی چیز غیب نہیں، سب شہادت ہی شہادت ہے۔
          اس حقیقت کو بیان کر نے میں سوال کا وہ طریقہ اختیار نہیں کیا گیا جو اوپر  تخلیق و تدبیر کائنات اور رزّاقی کے بیان میں اختیار کیا گیا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن صفات کے آثار تو بالکل  نمایا ں ہیں جنہیں ہر شخص دیکھ رہا ہے ، اور ان کے بارے میں کفار و مشرکین تک یہ مانتے تھے اور مانتے ہیں کہ یہ سارے کام اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں۔ اس لیے وہاں طرزِ استدلال یہ تھا کہ جب یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں اور کوئی ان  میں اس کا شریک نہیں  ہے  تو پھر خدائی میں تم نے دوسروں  کو کیسے شریک بنا لیا اور عبادت کے مستحق وہ کس بنا پر ہو گئے ؟لیکن علم کی صفت اپنے کوئی محسوس آثار نہیں رکھتی جن کی طرف اشارہ کیا جا سکے۔ یہ معاملہ صرف غور و فکر ہی سے سمجھ میں آسکتا ہے ۔ اس لیے اس کو سوال کے بجائے دعوے کے انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔ اب یہ ہر صاحبِ عقل کا کام ہے کہ وہ اپنی جگہ اس امر پر غور کرے کہ فی الحقیقت کیا یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا عالم الغیب ہو؟ یعنی تمام اُن احوال اور اشیاء اور حقائق کا جاننے والا ہو جو کائنات میں کبھی تھیں، یا اب ہیں، یا آئندہ ہوں گی۔ اور اگر کوئی دوسرا عالم الغیب نہیں ہے اور نہیں ہو سکتا تو پھر کیا یہ بات عقل میں آتی ہے کہ جو لوگ پوری طرح حقائق اور احوال سے واقف ہی نہیں ہیں ان میں سے کوئی بندوں کا فریا درس اور حاجت رو ا اور مشکل کشا ہو سکے؟
          الوہیت اور علمِ غیب کے درمیان ایک ایسا گہرا تعلق ہے کہ قدیم ترین زمانے سے انسان جس ہستی میں بھی خدائی کے کسی شائبے کا گمان کیا  ہے  اُس کے متعلق یہ خیال ضرور کیا ہے کہ اس پر سب کچھ روشن ہے اور کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ گویا انسان کا ذہن اِس حقیقت سے بالکل بد یہی طور پر آگاہ ہے کہ قسمتوں کا بنا نا اور بگاڑنا، دعاؤں کا سُننا، حاجتیں پوری کرنا اور ہر طالبِ امداد کی مدد کو پہنچنا صرف اُسی ہستی کا کام ہو سکتا ہے جو سب کچھ جانتی ہو اور جس سے کچھ بھی پوشیدہ نہ ہو۔ اِسی بنا پر تو انسان جس کو بھی خدائی اختیارات کا حامل سمجھتا ہے اُسے لازماً عالم الغیب بھی سمجھتا ہے ، کیونکہ اس کیعقل بلا ریب شہادت دیتی ہے کہ علم اور اختیارات باہم لازم و ملزوم ہیں۔ اب اگر یہ حقیقت ہے کہ خالق اور مدبر اور مجیب الدعوات اور رزاق خدا کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے ، جیسا کہ اوپر کی آیات میں ثابت کیا گیا ہے ، تو آپ سے آپ یہ بھی حقیقت ہے کہ عالم الغیب بھی خدا کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے۔ آخر کون اپنے ہوش و حواس میں یہ تصور کر سکتا ہے کہ کسی فرشتے یا جِن یا نبی یا ولی کو، یا کسی مخلوق کو بھی یہ معلوم ہوگا کہ سمندر میں اور ہوا میں اور زمین کی تہوں میں اور سطح زمین کے اوپر کس کس قسم کے کتنے جانور کہاں کہاں ہیں؟ اور عالمِ بالا کے بے حد وحساب سیاروں کی ٹھیک تعداد کیا ہے؟ اور ان میں سے ہر ایک میں کس کس طرح کی مخلوقات موجود ہیں؟ اور ان مخلوقات کا ایک ایک فرد کہاں ہے اور کیا اس کی ضروریات ہیں؟ یہ سب کچھ اللہ کو تولازماً معلوم ہونا چاہیے ، کیونکہ اس نے انہیں پیدا کیا ہے ، اور اسی کو ان کے معاملات کی تدبیر اور ان کے حالات کی نگہبانی کرنی ہے ، اور وہی ان کے رزق کا انتظام کرنے والا ہے ۔ لیکن دوسرا کوئی اپنے محدود وجود میں یہ وسیع و محیط علم رکھ کیسے سکتا ہے اور اس کا کیا تعلق اِس کا رِ خلّاقی و رزّاقی سے ہے کہ وہ اِن چیزوں کو جانے؟
          پھر یہ صفت قابل تجزیہ بھی نہین ہے کہ کوئی بندہ مثلاً صرف زمین کی حد تک ، اور زمین میں  بھی صرف انسانں کی حد تک عالم الغیب ہو۔ یہ اُسی طرح قابلِ تجزیہ نہیں ہے جس طرح خدا کی خلّاقی ورزّاقی اور قیومی و پروردگاری قابلِ تجزیہ نہیں ہے۔ ابتدائے آفرنیش سے آج تک جتنے انسان دنیا میں پیدا ہوئے ہیں اور قیامت تک اور قیامت تک پیدا ہونگے، رحمِ مادر میں استقرار کے وقت سے آخری ساعتِ حیات تک ان سب کے تمام حالات و کیفیات کو جاننا آخر کس بندے کا کام ہو سکتا ہے؟ اور وہ کیسے اور کیوں اس کو جانے گا؟ کیا وہ اس بے حدو حساب خلقت کا خالق ہے ؟ کیا اس نے ان کے باپوں کے نطفے میں ان کے جر ثومے کو وجود بخشا تھا؟ کیا اس نے ان کی ماؤں کے رحم میں ان کی صورت گری کی تھی؟ کیا اس  نے ان کی زندہ  ولادت کا انتظام کیا تھآ؟ کیا اس نے  ان میں سےا یک ایک شخص کی قسمت بنائی تھی؟ کیا وہ ان کی موت اور حیات، ان کی صحت اور مرض، ان کی خوشحالی اور بد حالی اور ان کے عروج اور زوال کے فیصلے کرنے کا ذمہ دار ہے ؟ اور آخر یہ کام کب سے اس کے ذمے ہوا؟ اس کی اپنی ولادت سے پہلے یا اس کے بعد؟ اور صرف انسانوں کی حدتک یہ ذمہ داریاں محدود کیسے ہو سکتی ہیں؟ یہ کام تولازماً زمین اور آسمانوں کے عالمگیر  انتظام کا ایک جز ہے ۔ جو ہستی ساری کائنات کی تدبیر کر رہی ہے وہی تو انسانوں کی پیدائش و موت اور ان کے رزق کے تنگی و کشادگی اور ان کی قسمتوں کے بناؤ اور بگاڑ کی ذمہ دار ہو سکتی ہے۔
           اسی بنا پر یہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے کہ عالم الغیب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں  سے جس پر چاہے اور جس قدر چاہے اپنی معلومات کا کوئی گوشہ کھول دے، اور اکسی غیب یا بعض غیوب کو ا پر روشن کر دے ، لیکن علمِ غیب بحیثیت مجموعی کسی کو نصیب نہیں اور عالم الغیب ہونے کی صفت صرف اللہ رب العالمین کے لیے مخصوص ہے۔ وَعِنْدَ ہٗ مَفَا تِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَآ اِلَّا ھُوَ، ” اور اُسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں، انہیں کوئی نہیں جانتا اُس کے سوا “(الانعام، آیت۵۹)۔ اِنَّ اللہ َ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّا عَۃِ ج وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ ج وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَ رْحَامِ ط وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَکْسِبُ غَدًا ط وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌم بِاَیِّ اَرْض تَمُوْتُ ط ”اللہ ہی کے پاس ہے قیامت کا علم اور وہی بارش نازل کرنے والا ہے ۔ اور وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے رحم میں کیا (پر ورش پا رہا )ہے۔ اور کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرے گا۔ اور کسی متنفس کو خبر نہیں ہے  کہ کس سر زمین  میں اس کو موت آئے گی“(لقمان ۔ آیت۳۴)۔ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْ ءٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآءَ،”وہ جانتا ہے جو کچھ مخلوقات کے سامنے ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے ، اور اس کے علم میں سے کسی چیز پر بھی وہ احاطہ نہیں کر سکتے اِلّا یہ کہ وہ جس چیز کا چاہے انہیں علم دے“(البقرہ۔آیت۲۵۵)۔
          قرآن مجید مخلوقات کے لیے علم غیب کی اس عام اور مطلق نفی پر ہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ خاص طور پر انبیاء علیم السلام ، اور خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس مر کی صاف صاف تصریح کرتا ہے  کہ وہ عالم الغیب نہیں ہیں اور اُن کو غیب کا صرف اُتنا علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہے جو رسالت کی خدمت انجام دینے کے لیے درکار تھا۔ سور ہ انعام آیت ۵۰، الاعراف آیت۱۸۷، التوبہ، آیت ۱۰۱، ہود ، آیت۳۱۔ احزاب ، آیت۶۳، الاحقاف آیت۹، التحریم، آیت۳، اور الجن آیات ۲۶ تا ۲۸ اس معاملہ میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں چھوڑتیں۔

          قرآن کی یہ تمام تصریحات زیر بحث آیت کی تائید و تشریح کرتی ہیں جن کے بعد اس امر میں کسی شک کی گنجائش نہییں رہتی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو عالم الغیب سمجھنا اور یہ سمجھنا کہ کوئی دوسرا بھی جمیع ماکان و مایکون کا علم رکھتا ہے ، قطعاً ایک غیر اسلامی عقیدہ ہے ۔ شیخین، ترمذی، نَسائی ، امام احمد، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے صحیح سندوں کے ساتھ حضرت عائشہؓ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ من زعم انہ (ای النبی صلی اللہ علیہ وسلم )یعلم ما یکون فی غد اعظم علی اللہ الفریۃ واللہ یقول قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَا لْاَ رْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللہ۔ یعنی”جس نے یہ دعویٰ کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جانتے ہیں کہ کل کیا ہونے والا  ہے اس نے اللہ پر سخت الزام لگایا، کیونکہ اللہ تو فرماتا ہے اے نبی تم کہہ دو کہ غیب کا علم اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین کے رہنے والوں میں سے کسی کو بھی نہیں ہے “۔ ابن المنذر حضرت عبد اللہ بن عباس کے مشہور شاگرد عِکْرِ مہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا”اے محمد  صلی اللہ علیہ وسلم، قیامت کب آئے گی؟ اور ہمارے علاقے میں قحط برپا ہے، بارش کب ہوگی؟ اور میری بیوی حاملہ ہے، وہ لڑکا جنے گی یا لڑکی؟ اور یہ تو مجھے معلوم ہے کہ میں نے آج کیا کمایا ہے ، کل کیا کماؤں گا؟ اور یہ تو مجھے معلوم ہے کہ میں کہاں پیدا ہوا ہوں، مروں گا کہاں“؟ ان سوالات کے جواب میں سورہ لقمان کی وہ آیت حضورؐ نے سنائی جو اوپر ہم نے نقل کی ہے اِنَّ اللہ َ عِنْدَ ہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ۔۔۔۔ پھر بخاری و مسلم اور دوسری کتبِ حدیث کی  وہ مشہور  روایت بھی اسی کی تائید کرتی ہے جس میں ذکر ہے کہ صحابہ کے مجمع میں حضرت جبریلؑ نے انسانی شکل میں آکر حضورؐ سے جو سوالات کیے تھے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ قیامت کب آئے گی؟ حضورؐ نے جواب دیا ما المسْئول عنھا باعلم من السّائل۔(جس سے پوچھا جا رہا ہے وہ خود پوچھنے والے سے زیاد ہ اس بارے میں کوئی علم نہیں رکھتا)۔ پھر فرمایا یہ اُن پانچ چیزوں میں سے ہے جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں، اور یہی مذکورہ بالا آیت حضورؐ نے تلاوت فرمائی۔