یہ سادہ سی بات جس کو ایک جملے میں بیان کر دیا گیا ہے ، اپنے اندر ایسی تفصیلات رکھتی ہے کہ آدمی ان کی گہرائی میں جتنی دور تک اُترتا جاتا ہے اتنے ہی وجودِ الٰہ اور وحدتِ الٰہ کے شواہد اسے ملتے چلے جاتے ہیں۔ پہلے تو بجائے خود تخلیق ہی کو دیکھیے۔ انسان کا علم آج تک یہ راز نہیں پاسکا ہے کہ زندگی کیسے اور کہاں سے آتی ہے ۔ اس وقت تک مُسلم سائنٹیفک حقیقت یہی ہے کہ بے جان مادّے کی محض ترکیب سے خود بخود جان پیدا نہیں ہو سکتی۔ حیات کی پیدائش کے لیے جتنے عوامل درکار ہیں ان سب کا ٹھیک تناسب کے ساتھ بالکل اتفاقاً جمع ہو کر زندگی کا آپ سے آپ وجود میں آجانا دہریوں کا ایک غیرعلمی کا مفروضہ تو ضرور ہے، لیکن اگر ریاضی کے قانون بخت و اتفاق(law of Change ) کو اس پر منطبق کیا جائے تو اس کے وقوع کا امکان صفر سے زیادہ نہیں نکلتا۔ اب تک تجربی طریقے پر سائنس کے معمولوں (labo ratories ) میں بے جان مادے سے جاندار مادہ پیدا کرنے کی جتنی کوششیں بھی کی گئی ہیں، تمام ممکن تدابیر استعمال کرنے کے با وجود وہ سب قطعی ناکام ہو چکی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ جو چیز پیدا کی جا سکی ہے وہ صرف وہ مادہ ہے جسے اصطلاح میں (D.N.A ) کہا جاتا ہے ۔ یہ وہ مادہ ہے جو زندہ خلیوں میں پایا جاتا ہے ۔ یہ جو ہرِ حیات تو ضرور ہے مگر خودجاندار نہیں ہے ۔ زندگی اب بھی بجائے خود ایک معجزہ ہی ہے جس کی کوئی علمی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جا سکی ہے کہ یہ ایک خالق کے امر و ارادہ اور منصوبہ کا نتیجہ ہے ۔ |