اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر۸۰

یہ سادہ سی بات جس کو ایک جملے میں بیان کر دیا گیا ہے ، اپنے اندر ایسی تفصیلات رکھتی ہے کہ آدمی ان کی گہرائی میں جتنی دور تک اُترتا  جاتا ہے اتنے ہی وجودِ الٰہ اور وحدتِ الٰہ کے شواہد اسے ملتے چلے جاتے ہیں۔ پہلے تو بجائے خود تخلیق ہی کو دیکھیے۔ انسان کا علم آج تک یہ راز نہیں پاسکا ہے کہ زندگی کیسے اور کہاں سے آتی ہے ۔ اس وقت تک مُسلم سائنٹیفک حقیقت یہی ہے کہ بے جان مادّے کی محض ترکیب سے خود بخود جان پیدا نہیں ہو سکتی۔ حیات کی پیدائش کے لیے جتنے عوامل درکار ہیں ان سب کا ٹھیک تناسب کے ساتھ بالکل اتفاقاً جمع ہو کر زندگی کا  آپ سے آپ وجود میں آجانا دہریوں کا ایک غیرعلمی کا مفروضہ تو ضرور ہے، لیکن اگر ریاضی کے قانون بخت و اتفاق(law of Change ) کو اس پر  منطبق کیا جائے تو اس کے وقوع کا امکان صفر سے زیادہ نہیں نکلتا۔ اب تک تجربی طریقے پر سائنس کے معمولوں (labo ratories ) میں بے جان مادے سے جاندار مادہ پیدا کرنے کی جتنی کوششیں بھی کی گئی ہیں، تمام ممکن تدابیر استعمال کرنے کے با وجود وہ سب قطعی ناکام ہو چکی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ جو چیز پیدا کی جا سکی ہے وہ صرف وہ مادہ ہے جسے اصطلاح میں (D.N.A ) کہا جاتا ہے ۔ یہ وہ مادہ ہے جو زندہ خلیوں میں پایا جاتا ہے ۔ یہ جو ہرِ حیات تو ضرور ہے مگر خودجاندار نہیں ہے ۔ زندگی  اب بھی بجائے خود ایک معجزہ ہی ہے  جس کی کوئی علمی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جا سکی ہے کہ یہ ایک خالق کے امر و ارادہ اور منصوبہ کا نتیجہ ہے ۔
          اس کے بعد آگے دیکھیے ۔ زندگی محض ایک مجرد صورت میں نہیں بلکہ بے شمارمتنّوع صورتوں میں پائِی جاتی ہے ۔ اس وقت تک روئے زمین  پر حیوانات کی تقریباً دس لاکھ اور نباتات کی تقریباً دو لاکھ انواع کا پتہ چلا ہے ۔ یہ لکھو کھا انواع اپنی ساخت اور نوعی خصوصیات میں ایک دوسرے سے ایسا واضح اور قطعی امتیاز رکھتی ہے ، اور قدیم ترین معلوم زمانے سے اپنی اپنی صورتِ نوعیہ  کو اس طرح برقرار رکھتی چلی آرہی ہے کہ ایک خدا کے تخلیقی منصوبے (Design ) کے سوا زندگی کے ایک عظیم تنّوع کی کوئی اور معقول توجیہ کرد ینا کسی ڈراون کے بس کی بات نہیں ہے۔ آج تک کہیں بھی دو نوعوں  کے درمیان کی کوئی ایک کڑی بھی نہیں مل سکتی ہے جو ایک نوع کی ساخت اور خصوصیات کا ڈھانچہ توڑ کر نکل آئی تو اور ابھی دوسری نوع کی ساخت اور خصوصیات تک پہنچنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہو۔ متحجرات(Fossils ) کا پورا ریکارڈ اس کی نظر سے خالی ہے اور موجودہ حوالات میں بھی یہ خنثٰی مشکل نہیں ملا ہے ۔ آج تک کسی نوع کا جو فرض بھی ملا ہے ، اپنی پوری صورتِ نوعیہ  کے ساتھ ہی ملا ہے ، اور ہر وہ افسانہ جو کسی مفقود کڑی کے  بہم پہنچ جانے کا وقتاً فوقتاً سنا دیا جاتا ہے ، تھوڑی مدت بعد حقائق اس کی ساری پھونک نکال دیتے ہیں۔ اس وقت تک یہ حقیقت اپنی جگہ بالکل اٹل ہے کہ ایک صانح حکیم، ایک خالق الباری المصور ہی نے زندگی کو یہ لاکھوں متنوع صورتیں عطا کی ہیں۔
           یہ تو ہے ابتداء خالق کا معاملہ ۔ اب ذرا اعادہ خلق پر غور کیجیے۔ خالق نے ہر نوع  حیوانی اور نباتی کی ساخت و تقریب میں وہ حیرت انگیز نظام العمل(Mechanism ) رکھ دیا ہے جو اس کے بے شمار افراد میں سے بے حدو حساب نسل کی اسی کی صورتِ نوعیہ اور مزاج و خصوصیات کے ساتھ نکالتا چلا جاتا ہے  اور کبھی جھوٹوں بھی ان کروڑ ہا کروڑ چھوٹے چھوٹے کا رخانوں میں یہ بھول چوک نہیں ہوتی کہ ایک  نوع کا کوئی کا رخانہ تنا سل کسی دوسری نوع کا ایک نمونہ نکال کر پھینک دے ۔ جدید علم تناسل (Genetics ) کے مشاہدات اس معاملے میں حیرت انگیز حقائق پیش کرتے ہیں ۔ ہرپودے میں یہ صلاحیت رکھی گئی ہے  کہ اپنی نوع کا سلسلہ آگے کی نسلوں تک جاری رکھنے کا ایسا مکمل انتظا م کرے جس سے آنے والی نسل اس کی نوع کی تمام امتیازی خصوصیات کی حامل ہو  اور اس کا ہر فرد دوسری تمام انواع کے افراد سے اپنی صورت نوعیہ میں  ممیز ہو۔ یہ بقائے نوع اور تناسل کا سامان ہر پودے کے ایک خلیے(Cell ) کے ایک حصہ میں ہوتا ہے  جسے مشکل  انتہائی طاقت ور خورد بین سے دیکھا جا سکتا ہے ۔ یہ چھوٹاسا انجینیر پوری صحت کے ساتھ پودے کے سارے نشوونما کو حتماً اُسی راستے پر ڈالتا ہے  جو اس کی اپنی صورتِ نوعیہ کا راستہ ہے ۔ اسی کی بدولت گیہوں کے ایک دانہ سے آج تک جتنے پودے بھی دنیا میں کہیں پیدا ہوئے ہیں انہوں نے گیہوں ہی پیدا کیا ہے ، کیس آب و ہوا اور کسی ماحول میں یہ حادثہ کبھی رونما نہیں ہوا کہ دانہ گندم کی نسل سے کوئی  ایک ہی دانہ جَو پیدا ہو جاتا۔ ایسا ہی معاملہ حیوانات اور انسان کا بھی ہے کہ ان میں سے کسی کی تخلیق بھی بس ایک دفعہ ہو کر نہیں رہ گئی ہے بلکہ ناقابلِ تصور وسیع پیمانے پر ہر طرف اعادہ خلق کا ایک عظیم کارخانہ چل رہا ہے  جو ہر نوع کے افراد سے پیہم اُسی نوع کے بے شمار افراد وجود میں لاتا چلا جا رہا ہے ۔ اگر کوئی شخص توالدُو  تناسُل کے اُس خٔد بینی تخم کو دیکھے جو تمام نوعی امتیازات اور موروثی خصوصیات کو اپنے ذرا سے وجود کے بھی محض ایک حصے میں لیے ہوئے ہوتا ہے ، اور پھر اس انتہائی  نازل اور پیچیدہ عضوی نظام اور نے انتہا لطیف و پُر پیچ عملیات(Progresses ) کو دیکھے جن کی مدد سے ہر نوع کے ہر فرد کا تخمِ تناسُل اُسی نوع کا فرد وجود میں لاتا ہے  ، تو وہ ایک لمحہ کے لیے بھی یہ تصور نہیں کر سکتا کہ ایسا نازل اور پیچیدہ نظام العمل کبھی خود بخود بن سکتا ہے اور پھر مختلف انواع کے اربوں ملین افراد میں آپ سے آپ ٹھیک چلتا بھی رہ سکتا ہے ۔ یہ چیز نہ صرف اپنی ابتدا کے لیے ایک صانع حکیم چاہتی ہے ، بلکہ ہرآن اپنے درست طریقہ پر چلتے رہنے کے لیے بھی ایک ناظم و مدّبر اور ایک حیّ و قیوم کی طالب ہے جو ایک لحظہ کے لیے بھی اِن کارخانوں کی نگرانی و رہنمائی سے غافل نہ ہو۔

          یہ حقائق ایک دہریے کے انکارِ خدا کی بھی اسی طرح جڑ کاٹ دیتے ہیں جس طرح ایک مشرک کے شرک کی۔ کون احمق یہ گمان کر سکتا ہے کہ خدائی کے اس کام میں کوئی فرشتہ یا جن یا نبی یا ولی ذرہ برابر بھی کوئی حصہ رکھتا ہے ۔ اور کون صاحبِ عقل آدمی تعصب سے پاک ہو کر یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سارا کارخانہ خلق و اعادہ خلق اِ س کمال حکمت و نظم کے ساتھ اتفاقاً شروع ہوا اور آپ سے آپ چلے جا رہا ہے۔