اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر۷۴

زمین کا اپنی بے حدو حساب مختلف انسوع آبادی کے لیے جائے قرار ہونا بھی کوئی سادہ سی بات نہیں  ہے ۔ اس کرہ خاکی کو جِن حکیمانہ مناسبتوں کےساتھ قائم کیا گیا ہے ، ان کی تفصیلات پر آدمی غور کرے تو اس کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور اسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ مناسبتیں ایک حکیم و دانا قادرِ مطلق کی تدبیر قائم نہ ہو سکتی تھیں۔ یہ کُرَہ فضائے بسیط میں معلق ہے ، کسی چیز پر ٹِکا ہوا نہی ہے ۔ مگر اس کے با وجود اس میں کوئی اضطراب اور اہتزاز نہیں ہے ۔ اگر اس میں ذرا سا بھی اہتزاز ہوتا، جس کے خطر ناک نتائج کا ہم کبھی ذلزلہ آجانے سے بآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں، تو یہاں کوئی آبادہ ممکن نہ تھی۔ یہ کرہ با قاعدگی کے ساتھ سورج کے سامنے رہتا  اور دوسرا رُخ ہر وقت چھپا رہتا تو یہاں کوئی آبادی ممکن نہ ہوتی کیونکہ ایک رُخ کو سردی اور بے نوری نباتات اور حیوانات  کی پیدائش کے قابل نہ رکھتی اور دوسرے رُخ کو گرمی کی شدت بے آب و گیا ہ اور غیر آباد بنا دیتی۔ اس کرہ پر پانچ سو میل کی بلندی تک ہوا کا ایک کثیف ردّا چڑھا دیا گیا ہے جو شہابوں کی خوفناک بم باری سے اسے بچائے ہوئے ہے ۔ ورنہ روزانہ دو کروڑ شہاب، جو ۳۰ میل فی سکینڈ کی رفتار سے زمین کی طرف گرتے ہیں، یہاں وہ تباہی مچاتے کہ کوئی انسان ، حیوان یا درخت جیتا نہ رہ سکتا تھا۔ یہی ہوا درجۂ حرارت کو قابو میں رکھتی ہے ، یہی سمندروں سے بادل اٹھاتی  اور زمین کے مختلف حصوں تک آپ رسانی کی خدمت انجام دیتی ہے اور یہی انسان اور حیوان اور نباتات کی زندگی کو مطلوبہ گیسیں فراہم کرتی ہے۔ یہ نہ ہوتی تب بھی زمین کسی آبادی کے لیے جائے قرار نہ بن سکتی ۔ اس کُرے کی سطح سے بالکل متصل وہ معدنیات اور مختلف قسم کے کیمیاوی اجزاء بڑے پیمانے پر فراہم کر دیے گئے ہیں جو نباتی، حیوانی اور انسانی زندگی کے لیے مطلوب ہیں۔ جس جگہ بھی یہ سرو سامان مفقود ہوتا ہے وہاں کی زمین کسی زندگی کو  سہارنے کے لائق نہیں ہوتی۔ اس کُرے پر سمندروں ، دریاؤں، جھیلوں، چشموں اور زیر زمین سوتوں کی شکل میں پانی کا بڑا عظیم الشان ذخیرہ فراہم کر دیا گیا ہے ، اور پہاڑوں پر بھی اس کے بڑے بڑے ذخائر کو منجمد کرنے اور پھر پگھلا کر بہانے کا انتظام کیا گیا ہے ۔ اس تدبیر کے بغیر یہاں کسی زندگی کا امکان  نہ تھا۔ پھر اس پانی ، ہوا اور تمام اُن اشیاء کو جو زمین پر پائی جاتی ہیں ، سمیٹیے رکھنے کے لیے اس کُرے میں نہایت ہی مناسب کشش رکھ دی گئی ہے ۔ یہ کشش اگر  کم ہوتی تو ہوا اور پانی ، دونوں کو نہ روک سکتی  اور درجۂ حرارت اتنا زیادہ ہوتا کہ زندگی یہاں دشوار ہو جاتی۔ یہ کشش اگر زیادہ ہوتی تو ہوا بہت کثیف ہو جاتی ، اس کا دباؤ بہت بڑھ جاتا، بخارات آبی کا اُٹھنا مشکل ہوتا اور بارشیں نہ ہو سکتیں، سردی زیادہ ہوتی ، زمین کے بہت کم رقبے آبادی کے قابل ہوتے، بلکہ کششِ ثقل بہت زیادہ ہونے کی صورت میں انسان اور حیوانات کی جسامت بہت کم ہوتی اور ان کا وزن اتنا زیادہ ہوتا کہ نقل  و حرکت بھی ان کے لیے مشکل ہوتی۔ علاوہ بریں ، اس کرے کو سورج سے ایک خاص فاصلے پر رکھا گیا ہے جو آبادی کے لے مناسب ترین  ہے ۔ اگر اس کا فاصلہ زیادہ ہوتا تو سورج سے اس کو حرارت کم ملتی، سردی بہت زیادہ ہوتی، موسم بہت  لمبے ہوتے ، اور مشکل ہی سے یہ آبادی کے قابل ہوتا۔ اور اگر فاصلہ کم ہوتا تو اس کے بر عکس گرمی کی زیادتی اور دوسری بہت سی چیزیں مل جل کر اسے انسان جیسی مخلوق کی سکونت کے قابل نہ رہنے دیتیں۔

          یہ صرف چند وہ مناسبتیں ہیں جن کی بدولت زمین اپنی موجودہ آبادی کے لیے جائے قرار بنی ہے ۔ کوئی شخص عقل رکھتا ہو اور ان امور کو نگاہ میں رکھ کر سوچے تو وہ ایک لمحہ کے لیے بھی نہ یہ تصور کر سکتا ہے  کہ کسی خالق حکیم کی منصوبہ سازی کے بغیر یہ مناسبتیں محض ایک حادثہ کے نتیجے میں خود بخود قائم ہو گئی ہیں، اور نہ یہ گمانہ کر سکتا ہے کہ اس عظیم الشان تخلیقی منصوبے کو بنانے اور روبعمل لانے میں کسی دیوی یا دیوتا، یا جن ، یا نبی و ولی، یا فرشتے کا کوئی دخل ہے۔