اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر۷۳

مشرکوں میں سے کوئی بھی اس سوال کا یہ جواب نہ دے سکتا تھا کہ یہ کام اللہ کے سوا کسی اور کے ہیں، یا اللہ کے ساتھ کوئی  اور بھی ان میں شریک ہے ۔ قرآن مجید دوسرے مقامات پر کفارِ مکّہ اور مشرکین عرب کے متعلق کہتا ہے ، وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ خَلَقَھُنَّ الْعَزِیْزُ الْعَلِیْمُ، وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَ، ”اگر تم ان سے پوچھو کہ کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے  تو وہ ضرور کہیں گے اُس زبردست ، علم والے نے ہی ان کو پیدا کیا ہے“ (الزخرف آیت۹) وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَھُمْ لَیَقُوْلُنَّ اللہُ،”اور اگر ان سے پوچھو کہ خود انہیں کس نے پیدا کیا ہے  تو وہ ضرور کہیں گے  اللہ نے“(الزخرف۔ آیت۸۷) وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآ ءً فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا لَیَقُوْلُنَّ اللہُ،”اور اگر ان سے پوچھو کہ کس نے آسمان  سے پانی برسایا اور مردہ پڑی ہوئی زمین کو جِلا اٹھایا تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے “(العنکبوت۔آیت۶۳)قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَالاَرْضَ۔۔۔۔ وَمَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَ فَسَیَقُوْلُوْنَ اللہ ،” ان سے پوچھو کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں؟ کون جاندار کو بے جان  میں سے اور بے جان کو جاندار میں سے نکالتا ہے؟  کون اس نظام ِ عالم کی تدبیر کر رہا ہے ؟ وہ ضرور کہیں گے  کہ اللہ “(یونس۔ آیت۳۱)۔ عرب کے مشرکین ہی نہیں ، دنیا بھر کے مشرکین بالعموم یہی مانتے تھے  اور آج بھی مانتے ہیں کہ کائنات کا خالق اور نظامِ کائنات کا مدبّر اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ اس لیے قرآن مجید کے اس سوال کا یہ جواب اُن میں سے کوئی شخص ہٹ دھرمی کی بنا پر رائے بحث بھی نہ دے سکتا تھا کہ ہمارے معبود خدا کے ساتھ اِن کاموں میں شریک ہیں، کیونکہ اگر وہ ایسا  کہتا تو اس کی اپنی ہی قوم کے ہزار ہا آدمی اس کو جھٹلا دیتے اور صاف کہتے کہ ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہے۔

          اس سوال  اور اس کے بعد کے سوالات میں صرف مشرکین ہی کے شرک کا ابطال نہیں ہے بلکہ دہریوں کی دہریت کا ابطال بھی ہے ۔ مثلاً اسی پہلے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ یہ بارش برسانے والا اور اس کے ذریعہ سے ہر طرح کی نباتات اُگانے والا کون ہے ؟ اب غور کیجیے، زمین میں اُس مواد کا ٹھیک سطح پریا سطح سے متصل موجود ہانا جو بے شمار مختلف اقسام کی نباتی زندگی کے لیے درکار ہے ، اور پانی کے اندر ٹھیک وہ اوصاف موجود ہونا جو حیوانی اور نباتی زندگی کی ضروریات کے مطابق ہیں، اور اس پانی کا پے در پے سمندروں سے اُٹھایا جانا اور زمین کے مختلف حصوں میں وقتاً فوقتاً ایک باقاعدگی کے ساتھ برسایا جانا، اور زمین ، ہوا ، پانی اور درجہ حرارت وغیرہ مختلف قوتوں کے درمیان ایسا متناسب تعاون قائم کرنا کہ اس سے نباتی زندگی کو نشوونما نصیب ہوا اور وہ ہر طرح کی حیوانی زندگی  کے لیے اس کی بے شمار ضروریات پوری کرے، کیا یہ سب کچھ ایک حکیم کی منصوبہ بندی اور دانشمندانہ تدبیر اور غالب قدرت و ارادہ کے بغیر خود بخود اتفاقاً ہو سکتا ہے ؟ اور کیا یہ ممکن ہے کہ یہ اتفاقی حادثہ مسلسل ہزار ہا برس بلکہ لاکھوں کروڑوں برس تک اسی باقاعدگی سے رونما ہوتا چلا جائَے؟ صرف ایک ہٹ دھرم آدمی ہی ، جو تعصب میں اندھا ہو چکا ہو، اسے ایک امر اتفاقی کہہ سکتا ہے ۔کسی راستی پسند عاقل انسان کے لے ایسا لغو دعویٰ کرنا اور ماننا ممکن نہیں ہے۔