اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر۷۲

بظاہر یہ سوال بڑا عجیب معلوم ہوتا ہے کہ اللہ بہتر ہے یا یہ معبود اِن باطل حقیقت کے اعتبار سے تو معبود انِ باطل میں سرے سے کسی خیر کا سوال ہی نہیں ہے کہ اللہ سے ان کا مقابلہ کیا جائے۔ رہے مشرکین تو وہ بھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہ تھے کہ اللہ کا اور اُن کے معبودوں کا کوئی مقابلہ ہے ۔ لیکن یہ سوال ان کے سامنے اس لیے رکھا گیا کہ وہ اپنی غلطی پر متنبہ ہوں۔ ظاہر ہے کہ کوئی شخص دنیا میں کوئی کام بھی اس وقت تک نہیں کرتا جب تک وہ اپنے نزدیک اس میں کسی بھلائی یا فائدے کا خیال نہ رکھتا ہو۔ اب اگر یہ مشرک لوگ اللہ کی عبادت کے بجائے ان معبودوں  کی عبادت کرتے تھے، اور اللہ کو چھوڑ کر ان سے اپنی حاجتیں طلب کرتے اور ان کے آگے نذر و نیاز پیش کرتے تھے ، تو یہ اِ س کے بغیر بالکل بے معنی تھا کہ ان معبودوں میں کوئی خیر ہو۔ اسی بنا پر ان کے سامنے صاف الفاظ میں یہ سوال رکھا گیا کہ بتاؤ اللہ بہتر ہے یا تمہارے یہ معبود؟ کیونکہ اس دو ٹوک سوال کا سامنا کرنے کی ان میں ہمت نہ تھی۔ ان میں سے کوئی کٹّے سے کٹّا مشرک بھی یہ کہنے کی جرأت نہ کر سکتا تھا کہ ہمارے معبود بہتر ہیں۔ اور یہ مان لینے کے بعد کہ اللہ بہتر ہے ، ان کے پورے دین کی بنیاد ڈھے جاتی تھی، اس لیے کہ پھر یہ بات سراسر نا معقول قرار پاتی تھی کہ بہتر کو چھوڑ کر بد تر کو اختیار کیا جائے۔
          اس طرح قرآن نے تقریر کے پہلے ہی فقرے میں مخالفین کو بے بس کر دیا۔ اس کے بعد اب پے در پے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور تخلیق کے ایک ایک کرشمے کی طرف انگلی اٹھا کر پو چھا جاتا ہے کہ بتاؤ یہ کام کس کے ہیں؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا خدا بھی ان کاموں میں شریک ہے ؟ اگر نہیں ہے تو پھر یہ دوسرے آخر کیا ہیں کہ انہیں تم نے معبود بنا رکھا ہے۔

          روایات میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اس آیت کی تلاوت فرماتے تو فوراً اس کے جواب میں فرماتے  بَلِ اللہُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰی وَاَجَلُّ وَاَکْرَمُ، ” نہیں بلکہ اللہ ہی بہتر ہے اور وہی باقی رہنے والا اور بزرگ و برتر ہے“۔