اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر٦٦

یعنی جاہلوں کا معاملہ تو دوسرا ہے ۔ وہ تو کہیں گے کہ حضرت صالحؑ اور ان کی اونٹنی کے معاملہ سے  اس زلزلے کا  کوئی تعلق نہیں جو قومِ ثمود پر آیا ، یہ چیزیں تو اپنے طبی  اسباب سے آیا کرتی ہیں، اس کے آنے یا نہ آنے میں اس چیز کا کوئی دخل نہیں ہو سکتا کہ کون اس علاقے میں نیک و کار تھا اور کون بد کار اور کس نے کس پر ظلم کیا تھا اور کس نے رحم کھایا تھا، یہ محض واعظانہ ڈھکوسلے ہیں کہ فلاں شہر یا فلاں علاقہ فسق و فجور سے بھر گیا تھا اس لیے اس پر سیلاب آگیا یا زلزلے نے اس کی بستیاں الٹ دی یا کسی اور  بلائے نا گہانی نے اسے تل پٹ کر ڈال لیکن جو لوگ علم رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کوئی اندھا بہرہ  خدا اس کائنات پر حکومت نہیں کر رہا ہے بلکہ ایک حکیم و دانا ہستی یہاں قسمتوں کے فیصلے کر رہی ہے ۔ اس کے فیصلے طبی اسباب کے غلام نہیں ہیں بلکہ طبی اسباب اس کے ادارے کے غلام ہیں۔ اس کے ہاں قوموں کو گرانے اور اٹھانے کے فیصلے اندھا دھند نہیں کیے جاتے بلکہ حکمت اور عدل کے ساتھ کیے جاتے ہیں اور ایک قانونِ مکافات بھی اس کی کتابِ آئین میں شامل ہےجس کی رو سے اخلاقی بنیادوں پر اس دنیا میں بھی ظالم کیفرکردار کو پہچانے جاتے ہیں۔ ان حقیقتوں سے جو لوگ باخبر ہیں وہ اس زلزلے کو اسباب طبی کا نتیجہ کہہ کر نہیں ٹال سکتے ۔ وہ اسے اپنے ہاتھوں میں تنبیہ کا کوڑا سمجھیں گے ۔ وہ اس سے عبرت حاصل کریں گے۔ وہ ان اخلاقی اسباب کو سمجھنے کی کوشش کریں گے جس کی بنا پر خالق نے اپنی پیدا کی ہوئی ایک پھلتی پھولتی قوم کو  غارت کر کے رکھ دیا۔ وہ اپنے رویے کو اس راہ سے ہٹائیں گے جو اس کاغذب لانے والی ہے اور اس راہ پر ڈالیں گے جو اس کی رحمت سے ہمکنار کرنے والی ہے۔