اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر۴۷

اس شخص کے بار ے میں قطعی طور پر یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کون تھا، اور اس کے پاس وہ کس خاص قسم کا علم تھا، اور اس کتاب سے کونسی کتاب مراد ہے جس کا علم اس کے پاس تھا۔ ان امور کی کوئی وضاحت نہ قرآن میں ہے نہ کسی حدیث صحیح میں۔ مفسرین میں سے بعض کہتے کہ وہ فرشتہ تھا اور بعض کہتے ہیں کہ وہ کوئی انسان تھا۔ پھر اُس انسان کی شخصیت کے تعین میں بھی ان کے درمیان اختلاف ہے ۔ کوئی آصف بن  برخیاہ(Asaf-B- Barchiah ) کا نام لیتا ہے جو یہودی ربّیوں کی روایات کے مطابق رئیس الرجال(Prince of Men ) تھے، کوئی کہتا ہے کہ وہ حضرت خضر تھے، کوئی کسی اور کانام لیتا ہے ، اور امام رازی کو اصرار ہے کہ وہ خود حضرت سلیمانؑ تھے۔ لیکن ان میں سے کسی کا بھی کوئی قابلِ اعتماد ماخذ نہیں  ہے ، اور امام رازی کی بات تو قرآن کے سیاق و سباق سے بھی مطابقت نہیں رکھتی۔ اسی طرح کتاب کے بارے میں بھی مفسرین کے اقول مختلف ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اس سے مراد لوحِ محفوظ ہے اور کوئی کتابِ شریعت مراد لیتا ہے ۔ لیکن یہ سب محض قیاسات ہیں۔ اور ایسے ہی قیاسات اُس علم کے  بارے میں بھی بلا دلیل و ثبوت قائم کر لیے گئے ہیں جو کتاب سے اس شخص کو حاصل تھا۔ ہم صرف اُتنی ہی بات جانتے اور مانتے ہیں جتنی قرآن میں فرمائی گئی ہے ، یا جو اس کے الفاظ سے مترشح ہوتی ہے ۔ وہ شخص بہر حال جِن کی نوع میں سے نہ تھآ اور بعید نہیں کہ وہ کوئی انسان ہی ہو۔ ا سکے پاس کوئی غیر معمولی علم تھا اور وہ اللہ کی کسی کتاب(الکتابِ) سے ماخوذ تھا۔ جِن اپنے وجوہ کی طاقت سے اس تخت کی چند گھنٹوں میں اٹھا لانے کا دعوٰی کر رہا تھا۔ یہ شخص علم کی طاقت سے اس کا ایک لحظہ میں اٹھا لایا۔