اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر۴۵

اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ  حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس جو جن تھے وہ آیا موجودہ زمانے کے بعض عقل پر ست مفسرین کی تاویلوں کے مطابق بنی نوع انسان میں سے تھے یا عرفِ عام کے مطابق اُسی پوشیدہ مخلوق میں سے جو جِن کے نام سے معروف ہے۔ ظاہر ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے دربار کی نشست زیادہ سے زیادہ تین چار گھنٹے کی ہوگی۔ اور بیت المقدس سے سبا کے پایہ تخت مارِب کا فاصلہ پرندے کی اڑان کے لحاظ سے بھِ کم از کم ڈیڑھ ہزار میل کا تھا۔ اتنے فاصلہ سے ایک  ملکہ کا  عظیم الشان تخت اتنی کم مدت میں اٹھالانا کسی انسان کا کام نہیں ہو سکتا تھا، خواہ وہ عَمالِقہ میں سے کتنا ہی موٹا تازہ آدمی کیوں نہ ہو۔ یہ کام تو آج کل کا جِٹ طیارہ بھی انجام دینے پر قادر نہیں ہے۔ مسئلہ اتنا ہی نہیں ہے کہ تخت کہیں جنگل میں رکھا ہواور اسے اٹھا لایا جائے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ تخت ایک ملکہ کے محل میں تھا جس پر یقیناً پہرہ دار متعین ہو ں گے اور وہ ملکہ کی غیر موجودگی میں ضرور محفوظ جگہ رکھا گیا ہو گا۔ انسان جا کر اٹھا لانا چاہتا تو اس کے ساتھ ایک چھاپہ مار دستہ ہونا چاہیے تھا کہ لڑ بھڑا کر اسے پہرہ داروں سے چھین لائے۔ یہ سب کچھ آخر دربار بر خاست ہونے سے پہلے کیسے ہو سکتا تھا۔ اس چیزکا تصور اگر کیا جا سکتا ہے تو ایک حقیقی جِن ہی  کے بارے میں کیا جاسکتا ہے۔