اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر۴۴

یعنی وہی تخت جس کے متعلق ہُد ہُد نے بتایا تھا کہ ”اس کا تخت بڑا عظیم الشان ہے“۔ بعض مفسرین نے غضب کیا ہے کہ ملکہ  کے آنے سے پہلے اس کا تخت منگوانے کی وجہ یہ قرار دی ہے کہ حضرت سلیمانؑ اس پر قبضہ کرنا چاہتے تھے، انہیں اندیشہ ہوا کہ اگر ملکہ مسلمان ہو گئی تو پھر اس کے مال پر اس کی مرضی کے بغیر قبضہ کر لینا حرام ہو جائے گا ، اس لیے انہوں نے اس کے آنے سے پہلے تخت منگا لینے کی جلدی کی، کیونکہ اس وقت ملکہ کا مال  مباح تھا۔ استغفر اللہ! ایک نبی کی  نیت کے متعلق یہ تصور بڑا ہی عجیب ہے ۔ آخر یہ کیوں نہ سمجھا جائے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام تبلیغ کے ساتھ ساتھ ملکہ اور اس کے درباریوں کو ایک معجزہ بھی دکھا نا چاہتے تھے تاکہ اسے معلوم ہو کہ اللہ رب العالمین اپنے انبیاء کو کیسی غیر معمولی قدرتیں عطا فرماتا ہے اور اسے یقین آجائے کہ حضرت سلیمان واقعی اللہ کے نبی ہیں۔ اس سے بھی کچھ زیادہ غضب بعض جدید مفسرین نے کیا ہے ۔ وہ آیت کا ترجمہ یہ کرتے ہیں کہ ”تم میں سے کون ہے جو ملکہ کےلیے ایک تخت مجھے لا دے“۔حالانکہ قرآن یاتینی بعرش لھا نہیں بلکہ بعرشھا کہہ رہا ہے  جس کے معنی ”اس کا تخت“ہیں نہ کہ ”اس کے لیے ایک تخت“۔ یہ بات صرف اس لیے بنائی گئی ہے کہ قرآن کے اس بیان سے کسی طرح پیچھا چھڑا یا جائے کہ حضرت سلیمانؑ اس ملکہ ہی کا تخت یمن سے بیت المقدس اُٹھوا منگانا چاہتے تھے اور وہ بھی اسی طرح کہ ملکہ کے پہنچنے سے پہلے پہلے وہ آجائے۔