اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر۴

اگر چہ آخرت کا عقیدہ ایمانیات میں شامل ہے، اور اس بنا پر” ایمان لانے والوں“سے مراد ظاہر ہے کہ وہی لوگ ہیں جو توحید اور رسالت کے سا تھ آخرت پر بھی ایمان لائیں، لیکن ایمانیات کے ضمن میں اس کے آپ سے آپ شامل ہونے کے با وجود یہاں اس عقیدے کی اہمیت ظاہر کرنے کے لیے خاص طور پر زور دے کر اسے الگ بیان کیا گیا ہے ۔ اس سے یہ ذہن نشین کرنا مقصود ہے کہ جو لوگ آخرت کے قائل نہ ہوں، ان کے لیے اس قرآن کے بتائے ہوئے استے پر چلنا بلکہ اس پر قدم رکھنا بھی محال ہے ۔ کیونکہ اس طرزِ فکر کے لوگ طبعاً اپنا معیارِ خیر و شر صرف اُنہی نتائج سے متعین کرتے ہیں جو اِس دنیا میں ظاہر ہوتے یا ہو سکتے ہیں۔ اور ان کے لیے کسی ایسی نصیحت و ہدایت کو قبول کرنا ممکن نہیں ہوتا جو انجامِ اُخروی کو سودوزیاں اور نفع و نقصان کا معیار قرار دے کر خیر و شر کا تعین کرتی ہو۔ ایسے لوگ اول تو انبیاء علیہم السلام کی تعلیم پر کان ہی نہیں دھرتے ، لیکن اگر کسی وجہ سے وہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں شامل ہو بھی جائیں تو آخرت کا یقین نہ ہونے کے باعث ان کے لیے ایمان و اسلام کے راستے پر ایک قدم چلنا بھی مشکل ہوتا ہے ۔ اس راہ میں پہلی ہی آزمائش جب پیش آئے گی، جہاں دنیوی فائدے اور اُخروی نقصان کے تقاضے انہیں دو مختلف سمتوں میں کھینچیں گے تو وہ بے تکلف دنیا کے فائدے کی طرف کھیچ جائیں گے اور آخرت کے نقصان کی ذرہ برابر پروا نہ کریں گے ، خواہ زبان سے وہ ایمان کے کتنے ہی دعوے کر تے رہیں۔