اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر۲۹

سبا جنوبی عرب کی مشہور تجارت پیشہ قوم تھی جس کا دارالحکومت مارِب ، موجودہ یمن کے دارالسطنت صنعاء سے ۵۵ میل بجانب شمال مشرق واقع تھا۔ اس کا زمانہ عروج مَعِین کی سلطنت کے زوال کے بعد تقریباً ۱۱۰۰؁ ق م سے شروع ہوا اور ایک ہزار سال تک یہ عرب میں اپنی عظمت کے ڈنکے بجاتی رہی۔ پھر ۱۱۵؁ ق م میں جنوبی عرب کی دوسری مشہور قوم حِمْیَر نے اس کی جگہ لے لی۔ عرب میں یمن اور حضرموت، اور افریقہ میں حبش کے علاقے پر اس کا قبضہ تھا۔ مشرقی افریقہ، ہندوستان، مشرق بعید اور خود عرب کی جتنی تجارت مصر و شام اور یونان وروم کے ساتھ ہوتی تھی وہ زیادہ تر انہی سبا ئیوں کے ہاتھ میں تھی۔ اسی وجہ سے یہ قوم قدیم زمانہ میں اپنی دولت کے لیے نہایت مشہور تھی۔ بلکہ یونانی مورخین تو اسے دنیا کی سب سے زیادہ مالدار قوم کہتے ہیں ۔ تجارت کے علاوہ ان کی خوشحالی کا بڑا سبب یہ تھا کہ انہوں نے اپنے ملک میں جگہ جگہ بند باندھ کر ایک بہترین نظامِ آب پاشی قائم کر رکھا تھا جس سے اُن کا پورا علاقہ جنت بنا ہوا تھا۔ اُن کے ملک کی اس غیر معمولی سر سبزی و شادابی کا ذکر یونانی مورخین نے بھی کیا ہے اور سورہ سبا کے دوسرے رکوع میں قرآن مجید بھی اس کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
ہُدہُد کا یہ بیان کہ”میں نے وہ معلومات حاصل کی ہیں جو آپ کے علم میں نہیں ہیں“۔یہ معنی نہیں رکھتا کہ حضرت سلیمانؑ سبا سے بالکل ناواقف تھے۔ ظاہر ہے کہ فلسطین و شام کے جس فرمانروا کی سلطنت بحرِ احمر کے شمال کنارے (خلیج عقبہ) تک پہنچی ہوئی تھی وہ اسی بحر احمر کے جنوبی کنارے(یمن) کی ایک ایسی  قوم سے ناواقف نہ ہو سکتا تھا جو بین الاقوامی تجارت کے ایک اہم حصے پر قابض تھی۔ علاوہ ازیں زَبُور سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ سے بھی پہلے اُن کے والد ماجد حضرت داؤد سبا سے واقف تھے۔ اُن کی دعا کہ یہ  الفاظ زبور میں ہمیں ملتے ہیں:
      ”اے خدا ، بادشاہ(یعنی خود حضرت داؤدؑ) کو اپنے احکام اور شاہزادے(یعنی حضرت سلیمانؑ) کو اپنی صداقت عطا فرما..... تر سیس اور جزیروں کے بادشاہ نذریں  گزار میں گے۔ سبا اور شیبا(یعنی سبا کی یمنی اور حبش شاخوں )کے بادشاہ ہدیے لائیں گے“۔(۷۲:۱۔۲و۱۰۔۱۱)۔

          اس لیے ہُدہُد کے قول کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قوم سبا کے مرکز میں جو چشم دید حالات میں دیکھ کر آیا ہوں وہ ابھی تک آپ کو نہیں پہنچے ہیں۔