اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر۲۸

موجودہ زمانے  کے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہُد ہُد سے مراد وہ پرندہ نہیں ہے جو عربی اور اُردو زبان میں اس نام سے معروف ہے بلکہ یہ ایک آدمی کا نام ہے جو حضرت سلیمانؑ کی فوج میں ایک افسر تھا ۔ اس دعوے کی بنیاد یہ نہیں ہے کہ تاریخ میں کہیں ہُد ہُد نام کا کوئی شخص اِن حضرات کو سلیمان علیہ السلام کی حکومت کے افسروں کی فہرست میں مل گیا ہے، بلکہ یہ عمارت صرف اس استدلال پر کھڑی کی گئی ہے کہ جانوروں کے ناموں پر انسانوں کے نام رکھنے کا رواج تمام زبانوں کی طرح عربی زبان میں بھی پایا جاتا ہے اور عبرانی میں بھی تھا۔ نیز یہ کہ آگے اس ہُد ہُد کا جو کام بیان کیا گیا ہے اور حضرت سلیمانؑ سے اس کی گفتگو کا جو ذکر ہے وہ ان کے نزدیک صرف ایک انسان ہی کر سکتا ہے۔ لیکن قرآن مجید کے سیاق ِ کلام کو آدمی دیکھے تو صاف معلوم ہوا ہے کہ یہ قرآن کی تفسیرنہیں بلکہ اس کی تحریف، اور اس سے بھی کچھ پڑھ کر اس کی تغلیظ ہے۔ آخر قرآن کو انسان کی عقل و خرو سے کیا دشمنی ہے کہ وہ کہنا تو یہ چاہتا ہو کہ حضرت سلیمان کے رسالے یا پلٹن یا محکمہ خبر رسانی کا ایک آدمی غائب تھا جسے انہوں نے تلاش کیا اور اس نے حاضر ہو کر یہ خبر دی اور اسے حضرت موصوف نے اِس خدمت پر بھیجا ، لیکن اسے وہ مسلسل ایسی چسیتان کی زبان میں بیان کرے کہ پڑھنے والا اول سے لے کر آخر تک اسے پرندہ ہی سمجھنے پر مجبور ہو۔ اس سلسلہ میں ذرا قرآن مجید کے بیان کی ترتیب ملا حظہ فرمائیے۔
          پہلے ارشاد ہوتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے اللہ کے اس فضل پر اظہارِ افتنانِ کیا کہ ”ہمیں منطق الطیر کا علم دیا گیا ہے“۔ اس فقرے میں اوّل تو طیر کا لفظ مطلق ہے جسے ہر عرب اور عربی دان پرندے ہی کے معنی میں لے گا۔ کیونکہ کوئی قرینہ اس  کے استعارہ و مجاز ہونے پر دلالت نہیں کر رہا ہے۔ دوسرے ، اگر طیر سے مراد پرندہ نہیں بلکہ انسانوں کا کوئی گروہ ہو تو اس کے لیے منطق (بولی) کے بجائے لغت یا لسان (یعنی زبان) کا لفظ زیادہ صحیح ہوتا ۔ اور پھر کسی شخص کا کسی دوسرے انسانی گروہ کی زبان جاننا کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے کہ وہ خاص طور پر اس کا ذکر کرے۔ آج ہمارے درمیان ہزار ہا آدمی بہت سی غیر زبانوں کے بولنے اور سمجھنے والے موجود ہیں۔ یہ آخر کونسا بڑا کمال ہے جسے اللہ تعالیٰ کا غیر معمولی عطیہ قرار دیا جا سکے۔
          اس کے بعد فرمایاگیا کہ ”سلیمان کے لیے جِن اور انس اور طیر کے لشکر جمع کیے گئے تھے“۔ اس فقرے میں اوّل تو جِن اور انس اور طیر، تین معروف اسمائے جنس استعمال ہوئے ہیں جو تین مختلف اور معلوم اجناس کے لیے عربی زبان میں مستعمل ہیں۔ پھر انہیں مطلق استعمال کیا گیا ہے اور کوئی قرینہ ان میں سے کسی کے استعارہ و مجاز یا تشبیہ ہونے کا موجود نہیں ہے جس سے ایک آدمی لغت کے معروف معنوں کے سوا کسی اور معنی میں انہیں لے۔ پھر انس کا لفظ جِن اور طَیر کے درمیان آیا ہے جو یہ معنی لینے میں صریحاً مانع ہے کہ جِن اور طَیر دراصل انس ہی کی جنس کے دو گروہ تھے۔ یہ معنی مراد ہوتے تو الجن و الطیر من الانس کہا جاتا نہ کہ من الجن و الانس و الطیر۔
          آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ طَیر کا جائزہ لے رہے تھے اور ہُدہُد کو غائب دیکھ کر انہوں نے یہ بات فرمائی۔ اگر یہ طَیر انسان تھاے اور ہُد ہُد بھی کسی آدمی کا نام ہی تھا تو کم از کم کوئی لفظ تو ایسا کہہ دیا جاتا کہ بے چارہ پڑھنے والا اس کو جانور نہ سمجھ بیٹھتا۔ گروہ کا نام پرندہ اور  اور اس کے ایک فرد کا نام ہُدہُد ، پھر بھی ہم سے توقع کی جاتی ہے کہ ہم آپ سے آپ  اسے انسان سمجھ لیں گے۔
          پھر حضرت سلیمانؑ فرماتے ہیں کہ ہُدہُد یا تو اپنے غائب ہونے کی کوئی معقول وجہ بیان کرے ورنہ میں اسے سخت سزا دوں گا یا ذبح کر دوں گا۔ انسان کو قتل کیا جاتا ہے ، پھانسی دی جاتی ہے ، سزائے موت دی جاتی ہے، ذبح کون کرتا ہے؟ کوئی بڑا ہی سنگدل اور بے درد آدمی جو شِ انتقام میں اندھا ہو چکا ہو تو شادہ کسی آدمی کو ذبح بھی کر دے، مگر کیا پیغمبر سے ہم یہ توقع کریں کہ وہ اپنی فوج کے ایک آدمی کو محض غیر حاضر(Deserter ) ہونے کے جرم میں ذبح کر دینے کا اعلان کر ے گا، اور اللہ میاں سے یہ حُسنِ ظن رکھیں کہ وہ ایسی سنگین بات کا ذکر کر کے اس پر مذمت کا ایک لفظ بھی نہ فرمائیں گے؟
          کچھ دور آگے چل کر ابھی آپ دیکھیں گے کہ حضرت سلیمانؑ اسی ہُد ہُد کو ملکہ سبا کے نام خط دے کر بھیجتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اے ان کی طرف ڈال دے یا پھینک دے (اَلْقِہْ اِلَیْھِمْ)۔ ظاہر ہے کہ یہ ہدایت پرندے کو تو دی جا سکتی ہے لیکن کسی آدمی کو سفیر یا ایلچی یا قاصد بنا کر بھیجنے کی صورت میں یہ انتہائی موزوں ہے ۔ کسی کی عقل ہی خبط ہوگئی تو وہ مان لے گا کہ ایک ملک کا بادشاہ دوسرے ملک کی ملکہ کے نام خط دے کر اپنے سفیر کو اس ہدایت کے ساتھ بھیج سکتا ہے کہ اسے لے جا کر اس کے آگے ڈال دے یا اس کی طرف پھینک دے ۔ کیا تہذیب و شائستگی کے اُس ابتدائی مرتبے سے بھی  حضرت سلیمان کو  گرا ہوا فرض کر لیا جائے جس کا لحاظ ہم جیسے معمولی لوگ بھی اپنے کسی ہمسائے کے پاس اپنے ملازم کو بھیجتے ہوئے رکھتے ہیں؟ کیا کوئی شریف آدمی اپنے ملازم سے یہ کہہ سکتا ہے کہ میرا یہ خط لے جا کر فلاں صاحب کے آگے پھینک آ؟
          یہ تمام قرائن صاف بتا رہے  ہیں کہ یہاں ہُدہُد کا مفہوم وہی ہے جو ازرو نے لغت اس لفظ کا مفہوم ہے، یعنی یہ کہ وہ انسان نہیں بلکہ ایک پرندہ تھا۔ اب اگر کوئی شخص یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کہ  ایک ہُدہُد وہ باتیں کر سکتا ہے جو قرآن اس کی طرف منسوب کر رہا ہے تو اسے صاف صاف کہنا چاہیے کہ میں قرآن کی اس بات کو نہیں مانتا۔ اپنے عدمِ ایمان کو اس پردے میں چھپانا کہ قرآن کے صاف اور صریح الفاظ میں اپنے من مانے معنی بھرے جائیں ، گھٹیا درجے کی منافقت ہے۔