اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر۲٦

صالح بندوں میں داخل کرنے سے مراد غالباً یہ ہے کہ آخرت میں میراانجام صالح بندوں کے ساتھ ہو اور  میں ان کے ساتھ جنت میں داخل ہوں ۔ اس لیے کہ آدمی جب عمل صالح کر ے گا تو صالح تو وہ آپ سے آپ  ہوگا ہی، البتہ آخرت میں کسی کا جنت میں داخل ہونا محض اس کے عمل صالح کے بل بوتے پر نہیں ہو سکتا بلکہ یہ اللہ کی رحمت پر موقوف ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لن ید خل احد کم الجنۃ عملہ”تم میں سے کسی کو بی محض اس کا عمل جنت میں نہیں  پہنچا دے گا“۔غرض کیا گیا کہ ولا انت یا رسُول اللہ”کیا حضورؐ کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے“؟فرمایا ولا انا الا ان یتغمد فی اللہ تعالیٰ برحمتہ” ہاں، میں بھی محض اپنے عمل کے بل بوتے پر جنت میں نہ چلا جاؤں گا جب تک  اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے مجھے نہ ڈھانک لے“۔

          حضرت سلیمانؑ کی یہ دعا اس موقع پر بالک بے محل ہو جاتی ہے اگر النمل سے مراد انسانوں کا کوئی قبیلہ لے لیا جائے اور نملۃ کے معنی قبیلہ نمل کے ایک فرد کے لے لیے جائیں ۔ ایک بادشاہ کے لشکر جرار سے ڈر کر کسی انسانی قبیلہ کے ایک فرد کا اپنے قبیلے کو خطرہ سے خبر دار کرنا آخر کونسی ایسی غیر معمولی بات ہے کہ وہ جلیل القدر بادشاہ اس پر خدا سے یہ دعا کرنے لگے۔ البتہ ایک شخص کو اتنی زبردست قوتِ ادراک حاصل ہونا کہ وہ دور سے ایک چیونٹی کی آواز بھی سُن لے اور اس کا مطلب بھی سمجھ جائے ضرور ایسی بات ہے جس سے آدمی کے غرورِ نفس میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہو۔ اسی صورت میں حضرت سلیمانؑ کی  یہ دعا بر محل ہو سکتی ہے۔