اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر۲۳

بائیبل میں اس کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے کہ جن حضرت سلیمانؑ کے لشکروں میں شامل تھے اور وہ ان سے خدمت لیتے تھے۔ لیکن تَلمود اور ربیوں کی روایات میں اس کا تفصیلی ذکر ملتا ہے (جیوش انسائکلو پیڈیا جلد ۱۱ صفحہ ۴۴۰) موجودہ زمانہ کے بعض لوگوں نے یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے کہ جِن اور طَیر سے مراد جِنّات اور پرندے نہیں ہیں بلکہ انسان ہی ہیں جو حضرت سلیمان ؑ کے لشکر میں مختلف کام کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ جِن سے مراد پہاڑی قبائل کےوہ لوگ ہیں جنہیں حضرت سلیمان ؑ نے مسخر کیا تھا اور وہ ان کے ہاں حیرت انگیز طاقت اور محنت کے کام کرتے تھے۔ اور طیر سے مراد گھوڑ سواروں کے دستے ہیں جو پیدل دستوں کی بہ نسبت بہت زیادہ تیزی سے نقل و حرکت کرتے تھے۔ لیکن یہ قرآن مجدی میں بے جا تاویل کی بد ترین مثالیں ہیں۔ قرآن یہاں جِن، انس اور طَیر، تین الگ الگ اقسام کے لشکر بیان کر رہا ہے اور تینوں پر الف ل تعریف جنس کے لیے لایا گیا ہے ۔ اس لیے لامحالہ الجن اور لطیر، الانس میں شامل نہیں ہو سکتے بلکہ وہ اس سے مختلف دو الگ  اجناس ہی ہو سکتی ہیں۔ علاوہ بریں کوئی شخص جو عربی زبان سے ذرہ برابر بھی واقفیت رکھتا ہو، یہ تصور نہیں کر سکتا کہ اس زبان سے محض لفظ الجِن بول کر انسانوں کا کوئی گروہ یا محض الطیر بول کر سواروں کارسالہ کبھی مراد لیا جا سکتا ہے اور کوئی عرب ان الفاظ کو سن کر ان کے یہ معنی سمجھ سکتا ہے۔ محض محاورے میں کسی انسان کو اس کے فوق العادۃ کام کی وجہ سے جِن، یا کسی عورت کو اس کے حسن کی وجہ سے پری، اور کسی تیز رفتار آدمی کو پرندہ کہہ دینا  یہ معنی نہیں رکھتا کہ اب جِن کے معنی طاقت ور آدمی اور پری کے معنی حسین عورت اور پرندے کے معنی تیز رفتار انسان ہی کے ہو جائیں۔ ان الفاظ کے یہ معنی تو مجاز ی ہیں نہ کہ حقیقی، اور کسی کلام میں کسی لفظ کو حقیقی معنی چھوڑ کر مجازی معنوں میں صرف اُسی وقت استعمال کیا جا سکتا ہے، اور سننے والے بھی ان کو مجاز ی معنوں میں صرف اُسی وقت لے سکتے ہیں جب کہ آس پاس کوئی واضح قرینہ ایسا موجود ہو جو اس کے مجاز ہونے پر دلالت کر تا ہو۔ یہاں آخر کونساقرینہ پایا جاتا ہے جس سے یہ گمان کیا جا سکے کہ جِن اور طیر کے الفاظ اپنے حقیقی لغوی معنوں میں نہیں بلکہ مجازی معنوں میں استعمال کیے گئے ہیں ؟ بلکہ آگے ان دونوں گروہوں کے ایک ایک فرد کا جو حال اور کام بیان کیا گیا ہے وہ تو اس تاویل کے بالکل خلاف معنی پر صریح دلالت کر رہا ہے ۔ کسی شخص کا دل اگر قرآن کی بات پر یقین نہ کرنا چاہتا ہو تو اسے صاف کہنا چاہیے کہ میں اس بات کو نہیں مانتا۔ لیکن یہ بڑی اخلاقی بزدلی اور علمی خیانت ہے کہ آدمی قرآن کے صاف صاف الفاظ کو توڑ مروڑ کر اپنے من مانے معنی پر ڈھالے اور یہ ظاہر کرے کہ وہ قرآن کے بیان کو مانتا ہے، حالانکہ دراصل قرآن نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اسے نہیں بلکہ خود اپنے زبردستی گھڑے ہوئے مفہوم کو مانتا ہے۔