اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر۲۰

وراثت سے مراد مال و جائداد کی وراثت نہیں بلکہ نبوت اور خلافت میں حضرت داؤدؑ کی جانشینی ہے۔ مال و جائداد کی میراث اگر بالفرض منتقل ہوئی بھی ہو تو وہ تنہا حضرت سلیمان ہی کی طرف منتقل نہیں ہو سکتی تھی ، کیونکہ حضرت داؤد کی دوسری اولاد بھی موجود تھی۔ اس لیے اس آیت کو اُس حدیث کی تردید میں پیش نہیں کیا جا سکتا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ لا نورث ما ترکنا صدقۃ، ”ہم انبیاء کی رواثت تقسیم  نہیں ہوتی، جو کچھ ہم نے چھوڑاوہ صدقہ ہے “(بخاری، کتاب فرض الخمس) اور ان النبی لا یورث انما میراثہ فی فقراء المسلمین و المساکین،”نبی کا وارث کوئی نہیں ہوتا، جو کچھ وہ چھوڑتا ہے  وہ مسلمانوں کے فقراء اور مساکین میں تقسیم کیا جاتا ہے“(مسند احمد، مرویات ابو بکر صدیقؓ، حدیث نمبر۶۰،نمبر۷۸)

          حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ ان کا اصل عبرانی نام سولومون تھا جو ”سلیم“ کا ہم معنی ہے ۔ ۹۶۵؁ قبل مسیح میں حضرت داؤد کے جانشین ہوئے اور ۹۶۶؁ ق م تک تقریباً ۴۰ سال فرمانروا رہے۔ ان کے حالات کی تفصیل کے لیےملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الحجر، حاشیہ ۷۔جلد سوم، الانبیاء، حواشی۷۴۔۷۵۔ ان کے حدودِ سلطنت کے متعلق ہمارے مفسرین نے بہت مبالغہ سے کام لیا ہے ۔ وہ انہیں دنیا کے بہت بڑے حصے کا حکمراں بتاتے ہیں، حالانکہ ان کی مملکت صرف موجودہ فلسطین و شرقِ اردن پر مشتمل تھی اور شام کا  ایک حصہ بھی اس میں شامل تھا۔ (ملاحظہ ہو نقشۂ ملک سلیمان، تفہیم القرآن جلد دوم ص۵۹۸)۔