اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر١۰١

ابن عمر ؓ کا قول ہے کہ یہ اس وقت ہو گا جب زمین میں کوئی نیکی کا حکم کرنے والا اور بدی سے روکنے والا باقی نہ رہے گا۔ ابن مَردُویہ نے ایک حدیث ابو سعید خُدری سے نقل کی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ یہی بات انہوں نے خود حضورؐ سے سنی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب انسان امر بالمعروف اور نہی  عن المنکر چھوڑ دیں گے تو قیامت قائم ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ ایک جانور کے ذریعہ سے  آخری مرتبہ حجت قائم فرمائے گا۔ یہ بات  واضح نہیں ہے  کہ یہ ایک ہی جانور ہوگا یا ایک خاص قسم کا جنسِ حیوان ہوگی جس کے بہت سے افراد روئے زمین پر پھیل جائیں گے۔۔۔۔ دابۃ من الارض کے الفاظ میں دونوں معنوں کا احتمال ہے ۔ بہر حال جو بات وہ کہے گا وہ یہ ہوگی کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ان آیات پر یقین نہیں کرتے تھے جن میں قیامت کے آنے اور آخرت برپا ہونے کی خبریں دی گئی تھیں، تو لو اب اس کا وقت آن پہنچا ہے  اور جان لو کہ اللہ کی آیات سچی تھیں۔ یہ فقرہ کہ ”لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے“یا تو اس جانور کے اپنے کلام کی نقل ہے، یا للہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے کلام کی حکایت۔ اگر یہ اُسی کے الفاظ کی نقل ہے تو ”ہماری“کا لفظ وہ اُسی طرح استعمال کرے گا جس طرح ایک حکومت کا ہر کارندہ”ہم“کا لفظ اس معنی میں بولتا ہے کہ وہ اپنی حکومت کی طرف سے بات کر رہا ہے نہ کہ اپنی شخصی حیثیت میں ۔ دوسری صورت میں بات صاف ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے کلام کو چونکہ اپنے الفاظ میں بیان فرمارہا ہے  اس لیے اس نے ”ہماری آیات“کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔
          اس جانور کے نکلنے کا وقت کونسا ہوگا؟ اس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یہ ہے کہ ”آفتاب مغرب سے طلوع ہوگا اور ایک روز دن دہاڑے یہ جانور نکل آئے گا۔ ان میں سے جو نشانی بھی پہلے ہو وہ بہر حال دوسری کے قریب ہی ظاہر ہوگی“(مسلم) دوسری روایات جو مسلم، ابن ماجہ، ترمذی اور مُسند احمد وغیرہ میں آئی ہیں، ان میں حضورؐ نے بتایا ہے کہ قیامت کے قریب زمانے میں دجال کا خروج، دابۃ الارض کا ظہور،دُخان(دھواں) اور آفتاب کا مغرب سے  طلوع وہ نشانیاں ہیں جو یکے بعد  دیگرے ظاہر ہوں گی۔
          اس جانور کی ماہیت، شکل و صورت، نکلنے کی جگہ، اور ایسی ہی دوسری تفصیلات کے متعلق طرح طرح کی روایات نقل کی گئ ہیں جو باہم بہت مختلف اور متضاد ہیں۔ ان چیزوں کے ذکر سے بجز ذہن کی پر اگندگی کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا، اور ان کے جانے کا کوئی فائدہ بھی نہیں کیونکہ جس مقصد کے لیے قرآن میں یہ ذکر کیا گیا ہے اس سےا ن تفصیلات کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

          رہا کسی جانور کا انسانوں سے انسانی زبان میں کلام کرنا ، تو یہ اللہ کی قدرت کا ایک کرشمہ ہے ۔ وہ جس چیز کو چاہے نطق کی طاقت بخش سکتا ہے ۔ قیامت سے پہلے تو وہ ایک جانور ہی کو نطق بخشے گا ۔ مگر جب وہ قیامت قائم ہو جائے گی تو اللہ کی عدالت میں انسان کی آنکھ اور کان اور اس کے جسم کی کھال تک بول اٹھے گی ، جیسا کہ قرآن میں تبصریح بیان ہوا ہے۔ حَتّٰیٓ اِذَا مَا جَآ ءُ وْ ھَا شَھِدَ عَلَیْھِمْ سَمْعُھُمْ وَاَبْصَا رُھُمْ وَجُلُوْدُھُمْ بِمَا کَانُوْ ا یَعْمَلُوْنَ۔۔۔۔ وَ قَالُوْ لِجُلُوْ دِھِمْ لِمَ شَھِدْ تُّمْ عَلَیْنَا قَا لُوْٓ ا اَنْطَقَنَا اللہُ الَّذِیْٓ اَنْطَقَ کُلَّ شَیءٍ (حٰم السجدہ۔ آیات۲۰۔۲۱)