ابن عمر ؓ کا قول ہے کہ یہ اس وقت ہو گا جب زمین میں کوئی نیکی کا حکم کرنے والا اور بدی سے روکنے والا باقی نہ رہے گا۔ ابن مَردُویہ نے ایک حدیث ابو سعید خُدری سے نقل کی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ یہی بات انہوں نے خود حضورؐ سے سنی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب انسان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دیں گے تو قیامت قائم ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ ایک جانور کے ذریعہ سے آخری مرتبہ حجت قائم فرمائے گا۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ یہ ایک ہی جانور ہوگا یا ایک خاص قسم کا جنسِ حیوان ہوگی جس کے بہت سے افراد روئے زمین پر پھیل جائیں گے۔۔۔۔ دابۃ من الارض کے الفاظ میں دونوں معنوں کا احتمال ہے ۔ بہر حال جو بات وہ کہے گا وہ یہ ہوگی کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ان آیات پر یقین نہیں کرتے تھے جن میں قیامت کے آنے اور آخرت برپا ہونے کی خبریں دی گئی تھیں، تو لو اب اس کا وقت آن پہنچا ہے اور جان لو کہ اللہ کی آیات سچی تھیں۔ یہ فقرہ کہ ”لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے“یا تو اس جانور کے اپنے کلام کی نقل ہے، یا للہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے کلام کی حکایت۔ اگر یہ اُسی کے الفاظ کی نقل ہے تو ”ہماری“کا لفظ وہ اُسی طرح استعمال کرے گا جس طرح ایک حکومت کا ہر کارندہ”ہم“کا لفظ اس معنی میں بولتا ہے کہ وہ اپنی حکومت کی طرف سے بات کر رہا ہے نہ کہ اپنی شخصی حیثیت میں ۔ دوسری صورت میں بات صاف ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے کلام کو چونکہ اپنے الفاظ میں بیان فرمارہا ہے اس لیے اس نے ”ہماری آیات“کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ |