اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر١۰

سورۂ قصص میں ہے کہ ندا ایک درخت  سے آرہی تھی،فِی الْبُقْعَۃِ الْمُبَا رَکَۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ۔ اس سے جو صورت معاملہ سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ وادی کے کنارے ایک خطے میں آگ سی لگی ہوئی تھی مگر نہ کچھ جل رہا تھا نہ کوئی دھواں اٹھ رہا تھا اور اس آگ کے اندر ایک ہرا بھرا درخت  کھڑا تھا جس پر سے یکایک یہ ندا آنی شروع ہوئی۔

          یہ ایک عجیب معاملہ ہے جو  انبیاء علیہم السلام کے ساتھ پیش آتا رہا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب پہلی مرتبہ نبوت سے سرفراز کیے گئے تو غارِ حرا ء کی تنہائی میں یکایک ایک فرشتہ آیا اور اس نے اللہ کا پیغام پہنچانا شروع کر دیا ۔ حضرت موسیٰ کے ساتھ بھی یہی صورت پیش آئی کہ ایک شخص سفر کرتا ہوا ٹھرا ہے، دُور سے آگ دیکھ کر راستہ پوچھنے یا انگارا چننے کی غرض سے آتا ہے اور یکلخت اللہ رب العالمین کی ہر قیاس و گمان سے بالا ذات اس سے مخاطب ہو جاتی ہے ۔ ان مواقع پر درحقیقت ایک ایسی غیر معمولی کیفیت خارج میں بھی اور انبیاء علیم السلام کے نفس میں بھی موجود ہوتی ہے  جس کی بنا پر انہیں اس امر کا یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ یہ کسی جِن یا شیطان یا خود ان کے اپنے ذہن کا کوئی کرشمہ نہیں ہے ، نہ اُن کے حواس کوئی دھوکا کھار ہے ہیں، بلکہ فی الواقع یہ خدا وندِ عالم یا اس کا فرشتہ ہی ہے جو ان سے ہم کلام ہے ۔( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ، النجم، حاشیہ۱۰)۔