اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشعراء حاشیہ نمبر۹١

 یعنی تمہاری دوسری قسم کی تعمیرات ایسی ہیں جو اگر چہ استعمال کے لیے ہیں ، مگر انکو شاندار، مزیَّن اور مستحکم بنانے میں تم اس طرح اپنی دولت، محنت اور قابلیتیں صرف کرتے ہو جیسے دنیا میں ہمیشہ رہنے کا سامان کر رہے ہو، جیسے تمہاری زندگی کا مقصد بس یہیں کے عیش کا اہتمام کرنا ہے اور اس کے ماوراء کوئی چیز نہیں ہے۔ جس کی تمہیں فکر ہو۔
اس سلسلے میں یہ بات ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ بلا ضرورت یا ضرورت سے زیادہ شاندار عمارتیں بنانا کوئی منفرد فعلن ہیں ہے جس کا ظہور کسی قوم میں اس طرح ہو سکتا ہو کہ اس کی اور سب چیزیں تو ٹھیک  ہوں اور بس یہی ایک کام وہ غلط کرتی ہو۔ یہ صورت حال تو ایک قوم میں رونما ہی اس وقت ہوتی ہے جب ایک طرف اس میں دولت کی ریل پیل ہوتی اور دوسری طرف اس کے اندر نفس پرستی و مادہ پرستی کی شدت بڑھتے بڑھتے جنون کی حد کو پہنچ جاتی ہے۔ اورت یہ حالت جب کسی قوم میں پیدا ہوتی ہے تو اس کا سارا ہی نظام تمدن فاسد ہو جاتا ہے۔ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کی تعمیرات پر جو گرفت کی اس سے مقصود یہ نہیں تھا کہ ان کے نزدیک صرف یہ عمارتیں ہی بجائے خود قابل اعتراض تھیں ، بلکہ در اصل وہ بحیثیت مجموعی ان کے فساد تمدن و تہذیب پر گرفت کر رہے تھے اور ان عمارتوں کا ذکر انہوں نے اس حیثیت سے کیا تھا کہ سارے ملک میں ہر طرف یہ بڑے بڑے پھوڑے اس فساد کی نمایاں ترین علامت کے طور پر ابھرے نظر آتے تھے۔