یہ ان کے اعتراض کا دوسرا جواب ہے۔ ان کے اعتراض میں یہ بات بھی مضمر تھی کہ ایمان لانے والوں کا جو گروہ حضرت نوحؑ کے گرد جمع ہو رہا ہ یہ چونکہ ہمارے معاشرے کے ادنیٰ طبقات پر مشتمل ہے ، اس لیے اونچے طبقوں میں سے کوئی شخص اس زمرے میں شامل ہونا گوارا نہیں کر سکتا۔ دوسرے الفاظ میں گویا وہ یہ کہہ رہے تھے کہ اے نوحؑ کیا تم پر ایمان لا کر ہم اپنے آپ کو اراذل اور سفہاء میں شمار کرائیں ؟ کیا ہم غلاموں ، نوکروں ، مزدوروں اور کام پیش لوگوں کی صف میں آ بیٹھیں ؟ حضرت نوحؑ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ میں آخر یہ غیر معقول طرز عمل کیسے اختیار کر سکتا ہوں کہ جو لوگ میری بات نہیں مانتے ان کے تو پیچھے پھرتا رہوں اور جو میری بات مانتے ہیں انہیں دھکے دے کر نکال دوں۔ میری حیثیت تو ایک ایسے بے لاگ آدمی کی ہے جس نے علی الاعلان کھڑے ہو کر پکار دیا ہے کہ جس طریقے پر تم لوگ چل رہے ہو یہ باطل ہے اور اس پر چلنے کا انجام تباہی ہے ، اور جس طریقے کی طرف میں رہنمائی کر رہا ہوں اسی میں تم سب کی نجات ہے۔ اب جس کا جی چاہے میری اس تنبیہ کو قبول کر کے سیدھے راستے پر آئے اور جس کا جی چاہے آنکھیں بند کر کے تباہی کی راہ چلتا رہے۔ میں یہ نہیں کر سکتا کہ جو اللہ کے بندے میری اس تنبیہ کو سن کر سیدھا راستہ اختیار کرنے کے لیے میرے پاس آئیں ان کی ذات، برادری، نسب اور پیشہ پوچھوں اور اگر وہ آپ لوگوں کی نگاہیں ’’کمین‘‘ ہوں تو ان کو واپس کر کے اس انتظار میں بیٹھا رہوں کہ ’’شریف‘‘ حضرات کب تباہی کا راستہ چھوڑ کر نجات کی راہ پر قدم رنجہ فرماتے ہیں۔ |