اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشعراء حاشیہ نمبر٦۳

 بعض مفسرین نے حضرت ابراہیمؑ کی اس دعائے مغفرت کی یہ توجیہ بیان کی ہے کہ مغفرت بہر حال اسلام کے ساتھ مشروط ہے اس لیے آں جناب کا اپنے والد کی مغفرت کے لیے دعا کرنا گویا اس بات کی دعا کرنا تھا کہ اللہ تعالیٰ اسے اسلام لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ لیکن قرآن مجید میں اس کے متعلق مختلف مقامات پر جو تصریحات ملتی ہیں وہ اس توجیہ سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اپنے والد کے ظلم سے تنگ آ کر جب گھر سے نکلنے لگے تو انہوں نے رخصت ہوتے وقت فرمایا : سَلٰمٌ عَلَیْکَ سَاَ سْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیٓ اِنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّا (مریم، آیت 47 ) ’’ آپ کو سلام ہے ، میں آپ کے لیے اپنے رب سے بخشش کی دعا کروں گا، وہ میرے اوپر نہایت مہربان ہے ‘‘۔ اسی وعدے کی بنا پر انہوں نے یہ دعائے مغفرت نہ صرف اپنے باپ کے لیے کی بلکہ ایک دوسرے مقام پر بیان ہوا ہے کہ ماں اور باپ دونوں کے لیے کی : رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ (ابرہیم۔ آیت 41 )۔ لیکن بعد میں انہیں کود یہ احساس ہو گیا کہ ایک دشمن حق، چاہے وہ ایک مومن کا باپ ہی کیوں نہ ہو، دعائے مغفرت کا مستحق نہیں ہے۔ وَمَا کَانَ ابْتِغْفَا رُ اِبْرٰھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّ عَدَھَآ اِیَّا ہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ اَنَّہٗ  عَدُ وٌّ لِلہِ تَبَرَّأ مِنْہُ (التوبہ۔ آیت 114) ’’ ابراہیم کا پنے باپ کے لیے دعائے مغفرت کرنا محض اس وعدے کی وجہ سے تھا جو اس نے اس سے کیا تھا۔ مگر جب یہ بات اس پر کھل گئی کہ وہ خدا کا دشمن ہے تو اس نے اس سے اظہار بیزاری کر دیا‘‘۔