اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشعراء حاشیہ نمبر۵٦

 یعنی تمام ان معبودوں میں سے ، جن کی دنیا میں بندگی و پرستش کی جاتی ہے ، صرف ایک اللہ رب العالمین ہے جس کی بندگی میں مجھے اپنی بھلائی نظر آتی ہے ، اور جس کی عبادت میرے نزدیک ایک دشمن کی نہیں بلکہ اپنے اصل مربی کی عبادت ہے۔ اس کے بعد حضرت ابراہیمؑ چند فقروں میں وہ وجوہ بیان کرتے ہیں جن کی بنا پر صرف اللہ رب العالمین ہی عبادت کا مستحق ہے ، اور اس طرح پنے مخاطبوں کو یہ احساس دلنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تمہارے پاس تو معبود ان غیر اللہ کی عبادت کے لیے کوئی معقول وجہ بجز تقلید آبائی کے نہیں ہے جسے تم بیان کر سکو، مگر میرے پاس صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کے لیے نہایت معقول وجوہ موجود ہیں جن سے تم بھی انکار نہیں کر سکتے۔

                        رابعًا، اس سے پیروانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سبق دینا مقصُود ہے کہ وہ اس انحطاط کے گڑھے میں گرنے سے بچیں جس میں پچھلے انبیا کے پیرو گر گئے۔ یہودیوں کی اخلاقی کمزوریوں ، مذہبی غلط فہمیوں اور اعتقادی و عملی گمراہیوں میں سے ایک ایک کی نشان دہی کر کے اس کے بالمقابل دینِ حق کے مقتضیات بیان کیے گئے ہیں تاکہ مسلمان اپنا راستہ صاف دیکھ سکیں اور غلط راہوں سے بچ کر  چلیں۔ اس سلسلے میں یہُود و نصاریٰ پر تنقید کرتے ہوئے قرآن جو کچھ کہتا ہے اس کو پڑھتے وقت مسلمانوں کو نبی صلی  اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث یاد رکھنی چاہیے جس میں آپ ؐ نے فرمایا ہے کہ تم بھی آخر کار پچھلی اُمتوں ہی کی روش پر چل رہو گے حتّٰی کہ  اگر وہ کسی گوہ کے بِل میں گُھسے ہیں، تو تم بھی اسی میں گُھسو گے۔ صحابہ ؓ  نے پُوچھا: یا رسول اللہ ، کیا یہُود و نصاریٰ مراد ہیں؟ آپ ؐ نے فرمایا، اور کون؟ نبی اکرم ؐ کا ارشاد محض ایک تَو بِیخ نہ تھا  بلکہ اللہ کی دی ہوئی بصیرت سے آپ یہ جانتے تھے کہ انبیا کی اُمتوں میں بگاڑ کن کن راستوں سے آیا اور کن کن شکلوں میں ظہُور کرتا رہا ہے۔