یعنی میں جب غور کرتا ہوں تو مجھے یہ نظر آتا ہے کہ اگر میں ان کی پرستش کروں گا تو میری دنیا و آخرت دونوں برباد ہو جائیں گی۔ میں ان کی عبادت کو محض بے نفع اور بے ضرر ہی نہیں سمجھتا بلکہ الٹا نقصان وہ سمجھتا ہوں ، اس لی میرے نزدیک تو ان کو پوجنا دشمن کو پوجنا ہے۔ اس کے علاوہ حضرت ابراہیمؑ کے اس قول میں اس مضمون کی طرف بھی اشارہ ہے جو سورہ مریم میں ارشاد ہوا کہ وَتَّخَذُوْ امِنْدُوْنِ اللہِ اٰلِھَۃً لِّیَکُوْنُوْ ا لَھُمْ عِزًّا ہ کَلَّا سَیَکْفُرُوْنَ بِعِبَادَ تِہَمْ وَیَکُوْنُوْنَ عَلَیْھِمْ ضِدًّا۔ (آیت 81۔ 82 ) انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا لیے ہیں تاکہ وہ ان کے لیے ذریعہ قوت ہوں۔ ہر گز نہیں۔ عنقریب وہ وقت آئے گا جب کہ وہ ان کی عبادت کا انکار کر دیں گے اور الٹے ان کے مخالف ہوں گے ‘‘۔ یعنی قیامت کے روز وہ ان کے خلاف گواہی دیں گے اور صاف کہہ دیں گے کہ نہ ہم نے ان سے کبھی کہا کہ ہماری عبادت کرو، نہ ہمیں خبر کہ یہ ہماری عبادت کرتے تھے۔ |