اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشعراء حاشیہ نمبر۵۵

 یعنی میں جب غور کرتا ہوں تو مجھے یہ نظر آتا ہے کہ اگر میں ان کی پرستش کروں گا تو میری دنیا و آخرت دونوں برباد ہو جائیں گی۔ میں ان کی عبادت کو محض بے نفع اور بے ضرر ہی نہیں سمجھتا بلکہ الٹا نقصان وہ سمجھتا ہوں ، اس لی میرے نزدیک تو ان کو پوجنا دشمن کو پوجنا ہے۔ اس کے علاوہ حضرت ابراہیمؑ کے اس قول میں اس مضمون کی طرف بھی اشارہ ہے جو سورہ مریم میں ارشاد ہوا کہ وَتَّخَذُوْ امِنْدُوْنِ اللہِ اٰلِھَۃً لِّیَکُوْنُوْ ا لَھُمْ عِزًّا ہ کَلَّا سَیَکْفُرُوْنَ بِعِبَادَ تِہَمْ وَیَکُوْنُوْنَ عَلَیْھِمْ ضِدًّا۔ (آیت 81۔ 82 ) انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا لیے ہیں تاکہ وہ ان کے لیے ذریعہ قوت ہوں۔ ہر گز نہیں۔ عنقریب وہ وقت آئے گا جب کہ وہ ان کی عبادت کا انکار کر دیں گے اور الٹے ان کے مخالف ہوں گے ‘‘۔ یعنی قیامت کے روز وہ ان کے خلاف گواہی دیں گے اور صاف کہہ دیں گے کہ نہ ہم نے ان سے کبھی کہا کہ ہماری عبادت کرو، نہ ہمیں خبر کہ یہ ہماری عبادت کرتے تھے۔
یہاں حکمت تبلیغ کا بھی ایک نکتہ قابل توجہ ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ تمہارے دشمن ہیں ، بلکہ یہ فرمایا ہے کہ وہ میرے دشمن ہیں۔ اگر وہ کہتے کہ یہ تمہارے دشمن ہیں تو مخاطب کے لیے ضد میں مبتلا ہو جانے کا زیادہ موقع تھا۔ وہ اس بحث میں پڑ جاتا کہ بتاؤ، وہ ہمارے دشمن کیسے ہو گئے۔ بخلاف اس کے جب انہوں نے کہا کہ ہو میرے دشمن ہیں تو اس سے مخاطب کے لیے یہ سوچنے کا موقع پیدا  ہو گیا کہ وہ بھی اسی طرح اپنے بھلے اور برے کی فکر کے جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے کی ہے۔ اس طریقہ سے حضرت ابراہیمؑ نے گویا ہر انسان کے اس فطری جذبے سے اپیل کی جس کی بنا پر وہ خود اپنا خیر خواہ ہوتا ہے اور جان بوجھ کر کبھی اپنا برا نہیں چاہتا۔ انہوں نے اسے بتایا کہ میں تو ان کی عبادت میں سراسر نقصان دیکھتا ہوں ، اور دیدہ و دانستہ میں اپنی بد خواہی نہیں کر سکتا، لہٰذا دیکھ لو کہ میں کوڈ ان کی بندگی و پرستش سے قطعی اجتناب کرتا ہوں۔ اس کے بعد مخاطب فطرۃً یہ سوچنے پر مجبور تھا کہ اس کی اپنی بھلائی کس چیز میں ہے ، کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ نا دانستہ اپنی بد خواہی کر رہا ہو۔