اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشعراء حاشیہ نمبر۴۹

 یعنی قریش کے لیے اس میں یہ سبق ہے کہ ہٹ دھرم لوگ کھلے کھلے معجزات دیکھ کر بھی کس طرح ایمان لانے سے انکار ہی کیے جاتے ہیں اور پھر اس ہٹ دھرمی کا انجام کیسا درد ناک ہوتا ہے۔ فرعون اور اس کی قوم کے تمام سرداروں اور ہزارہا لشکر یوں کی آنکھوں پر ایسی پٹی بندھی ہوئی تھی کہ سالہا سال تک جو نشانیاں ان کو دکھائی جاتی رہیں ان کو تو وہ نظر انداز کرتے ہی رہے تھے ، آخر میں عین غرق ہونے کے وقت بھی ان کو یہ نہ سوجھا کہ سمندر اس قافلے کے لیے پھٹ گیا ہے ، پانی پہاڑوں کی طرح دونوں طرف کھڑا ہے اور بیچ میں سوکھی سڑک سی بنی ہوئی ہے۔ یہ صریح علامتیں دیکھ کر بھی ان کو عقل نہ آئی کہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ خدائی طاقت کام کر رہی ہے اور وہ اس طاقت سے لڑنے جا رہے ہیں۔ ہوش ان کو آیا بھی تو اس وقت جب پانی نے دونوں طرف سے ان کو دبوچ لیا تھا اور وہ خدا کے غضب میں گھر چکے تھے۔ اس وقت فرعون چیخ اٹھا کہ : اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْٓ اِسْرَآءِیْلَ وَ اَنَا مِنَالْمُسْلِمِیْنَ O (یونس۔ آیت 90)۔
دوسری طرف اہل ایمان کے لیے بھی اس میں یہ نشانی ہے کہ ظلم اور اس کی طاقتیں خواہ بظاہر کیسی ہی چھائی ہوئی نظر آتی ہوں ، آخر کار اللہ تعالیٰ کی مدد سے حق کا یوں بول بالا ہوتا ہے اور باطل اس طرح سرنگوں ہو کر رہتا ہے۔