اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشعراء حاشیہ نمبر۴۰

 یعنی ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا تو بہر حال ایک نہ ایک دن ضرور ہے۔ اب اگر تو قتل کر دے گا تو اس سے زیادہ کچھ نہ ہو گا کہ وہ دن جو کبھی آنا تھا، آج آ جائے گا۔ اس صورت میں ڈرنے کا کیا سوال؟ ہمیں تو الٹی مغفرت اور خطا بخشی کی امید ہے کیونکہ آج اس جگہ حقیقت کھلتے ہی ہم نے مان لینے میں ایک لمحے کی تاخیر بھی نہ کی اور اس پورے مجمع میں سب سے پہلے پیش قدمی کر کے ہم ایمان لے آئے۔
جادو گروں کے اس جواب نے دو باتیں تمام اس خلقت کے سامنے واضح کر دیں جسے فرعون نے ڈھنڈورے پیٹ پیٹ کر جمع کیا تھا۔
اول یہ کہ فرعون نہایت جھوٹا، ہٹ دھرم اور مکار ہے۔ جو مقابلہ اس نے خود فیصلے کے لیے کرایا تھا اس میں موسیٰ علیہ السلام کی کھلی کھلی فتح کو سیدھی طرح مان لینے کے بجائے اور اس نے فوراً ایک جھوئی سازش کا افسانہ گھڑ لیا اور قتل و تعصیب کی دھمکی دے کر زبر دستی اس کا اقرار کرانے کی کوشش کی۔ اس افسانے میں ذرہ برابر بھی کوئی صداقت ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ جادو گر ہاتھ پاؤں کٹوانے اور سولی پر چڑھ جانے کے لیے یوں تیار ہو جاتے۔ ایسی کسی سازش سے اگر کوئی سلطنت مل جانے کا لالچ تھا تو اب اس کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہی، کیونکہ سلطنت کے مزے تو جو لوٹے گا سو لوٹے گا، ان غریبوں کے حصے میں تو صف کٹ کٹ کر جان دینا ہی رہ گیا ہے۔ اس ہولناک خطرے کو انگیز کر کے بھی ان جادو گروں کا اپنے ایمان پا قائم رہنا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ سازش کا الزام سراسر جھوٹا ہے اور سچی بات یہی ہے کہ جادو گر اپنے فن میں ماہر ہونے کی وجہ سے ٹھیک ٹھیک جان گئے ہیں کہ جو کچھ موسیٰ علیہ السلام نے دکھایا ہے وہ ہر گز جادو نہیں ہے بلکہ واقعی اللہ رب العالمین ہی کی قدرت کا کرشمہ ہے۔
دوسری بات جو اس وقت ملک کے گوشے گوشے سے مٹ کر آئے ہوئے ہزارہا آدمیوں کے سامنے کھل کر آ گئی وہ یہ تھی کہ اللہ رب العالمین پر یمان لاتے ہی ان جادوگروں میں کیسا زبردست اخلاقی انقلاب واقع ہو گیا۔ کہاں تو ان کی پستی ذہن و فکر کا یہ حال تھا کہ دین آبائی کی نصرت کے لیے آئے تھے اور فرعون کے آگے ہاتھ جوڑ جوڑ کر انعام مانگ رہے تھے ، اور کہاں اب آن کی آن میں ان کی بلندی ہمت و عزم اس درجے کو پہنچ گئی کہ وہی فرعون ان کی نگاہ میں ہیچ ہو گیا، اس کی بادشاہی کی ساری طاقت کو انہوں نے ٹھوکر مار دی اور اپنے ایمان کی خاطر وہ موت اور بد ترین جسمانی تعذیب تک برداشت کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ اس سے بڑھ کر مصریوں کے دین شرک کی تذلیل اور موسیٰ علیہ السلام کے لائے ہوئے دین حق کی مؤثر تبلیغ اس نازک نفسیاتی موقع پر شاید ہی کوئی اور ہو سکتی تھی۔