اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشعراء حاشیہ نمبر۲٦

 حضرت موسیٰ کے سوال پر فرعون کا یہ جواب خود ظاہر کرتا ہے کہ اس کا حال قدیم و جدید زمانے کے عام مشرکین سے مختلف نہ تھا۔ وہ دوسرے تمام مشرکین کی طرح فوق الفطری معنوں میں اللہ کے الٰہٰ الالٰہہ ہونے کو مانتا تھا اور ان ہی کی طرح یہ بھی تسلیم کرتا تھا کہ کائنات میں اس کی قدرت سب دیوتاؤں سے بر تر ہے۔ اسی وجہ سے حضرت موسیٰ نے اس سے کہا کہ اگر تجھے میرے مامور من اللہ ہونے کا یقین نہیں ہے تو میں ایسی صریح نشانیاں پیش کروں جن سے ثابت ہو جائے کہ میں سی کا بھیجا ہوا ہوں۔ اور اسی وجہ سے اس نے بھی جواب دیا کہ اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو تو لاؤ کوئی نشانی۔ ورنہ ظہر ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی ہستی یا اس کے مالک کائنات ہونے ہی میں اسے کلام ہوتا تو نشانی کا سوال پیدا ہی نہ ہو سکتا تھا۔ نشانی کی بات تو اسی صورت میں درمیان آسکتی تھی جب کہ اللہ تعالیٰ کا وجود اور اس کا وجود اور اس کا قادر مطلق ہونا تو مسلم ہو، اور بحث اس امر میں ہو کہ حضرت موسیٰ اس کے بھیجے ہوئے ہیں یا نہیں۔