اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشعراء حاشیہ نمبر١۳۵

  یعنی خدا کے اس بے لاگ دین میں جس طرح نبی کی ذات کے لیے کوئی رعایت نہیں اسی طرح نبی کے خاندان اور اس کے قریب ترین عزیزوں کے لیے بھی کسی رعایت کی گنجائش نہیں ہے۔ یہاں جس کے ساتھ بھی کوئی معاملہ ہے اس کے اوصاف( (Merits کے لحاظ سے ہے۔ کسی کا نسب اور کسی کے ساتھ آدمی کا تعلق کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا۔ گمراہی و بد عملی پرخاش کے عذاب کا خوف سب کے لیے یکساں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اور سب تو ان چیزوں پر پکڑے جائیں ، مگر نبی کے رشتہ دار بچے رہ جائیں۔ اس لیے حکم ہوا کہ اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو بھی صاف صاف متنبہ کر دو۔ اگر وہ اپنا عقیدہ اور عمل درست نہ رکھیں گے تو یہ بات ان کے کسی کام نہ آ سکے گی کہ وہ نبی کے رشتہ دار ہیں۔
معتبر روایات میں آیا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سب سے پہلے اپنے دادا کی اولاد کو خطاب فرمایا اور ایک ایک کو پکار کر صاف صاف کہہ دیا کہ یا بنی عبد المطلب، یاعباس، یا صفیۃ عمۃ رسول اللہ، یا فاطمۃ بنت محمد، انقذوا انفسکم من النار، فانی لا املک لکم من اللہ شیئاً، سلونی من مالی ماشئتم۔ ’’ اے نبی عبد المطلب، اے عباس، اے صفیہ رسول اللہ کی پھوپھی، اے فاطمہ محمدؐ کی بیٹی، تم لوگ آگ کے عذاب سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کر لو، میں خدا کی پکڑ سے تم کو نہیں بچا سکتا، البتہ میرے مال میں سے تم لوگ جو کچھ چاہو مانگ سکتے ہو‘‘۔ پھر آپ نے صبح سویرے صفا کے سب سے اونچے مقام پر کھڑے ہو کر پکارا یا صباحاہ (ہائے صبح کا خطرہ)، اے قریش کے لوگو، اے بنی کعب بن لُؤَیّ، اے بنی مرّہ، اے آل قُصَیّ، اے بنی عبد مَناف، اے بنی عبدشمس، اے بنی ہاشم، اے آل عبد المطلب۔ اس طرح قریش کے ایک ایک قبیلے اور خاندان کا نام لے لے کر آپ نے آواز دی۔ عرب میں قاعدہ تھا کہ جب صبح تڑکے کسی اچانک حملے کا خطرہ ہوتا تو جس شخص کو بھی اس کا پت چل جاتا وہ اسی طرح پکارنا شروع کر دیتا اور لوگ اس کی آواز سنتے ہیں ہر طرف سے دوڑ پڑتے۔ چنانچہ حضورؐ کی اس آواز پر سب لوگ گھروں سے نکل آئے ، اور جو خود نہ آ سکا اس نے اپنی طرف سے کسی کو خبر لانے کے لیے بھیج دیا۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو آپؐ نے فرمایا : ’’ لوگو، اگر میں تمہیں بتاؤں کہ اس پہاڑ کے دوسری طرف ایک بھاری لشکر ہے جو تم پر ٹوٹ پڑنا چاہتا ہے تو تم میری بات سچ مانو گے ؟ سب نے کہا ہان، ہمارے  تجربے میں تم کبھی جھوٹ بولنے والے نہیں رہے ہو۔ آپ نے فرمایا، ’’ اچھا تو میں خدا کا سخت عذاب آنے سے پہلے تم کو  خبردار کرتا ہوں۔ اپنی جانوں کو اس کی پکڑ سے بچانے کی فکر کرو۔ میں خدا کے مقابلے میں تمہارے کسی کام نہیں آ سکتا۔ قیامت میں میرے رشتہ دار صرف متقی ہوں گے۔ ایسا نہ ہو کہ دوسرے لوگ نیک اعمال لے کر آئیں اور تم لوگ دنیا کا وبال سر پر اٹھائے ہوئے آؤ۔ اس وقت تم پکارو گے یا محمدؐ، مگر میں مجبور ہوں گا کہ تمہاری طرف سے منہ پھیر لوں۔ البتہ دنیا میں میرا اور تمہارا خون کا رشتہ ہے اور یہاں میں تمہارے ساتھ ہر طرح کی صلہ رحمی کروں گا ‘‘۔ (اس مضمون کی متعدد روایات بخاری، مسلم، مسند احمد، ترمذی، نسائی  اور تفسیر ابن جریر میں حضرت عائشہ، حضرت ابو ہریرہ، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت زہیر بن عمرو اور حضرت قبیصہ بن مخارق سے مروی ہیں )۔
یہ معاملہ صرف اس حد تم نہ تھا کہ قرآن میں اَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ کا حکم آیا اور حضورؐ نے اپنے رشتہ داروں کو جمع کر کے بس اس کی تعمیل کر دی۔ در اصل اس میں جو اصول واضح کیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ دین میں نبی اور اس کے خاندان کے لیے کوئی امتیازی مراعات نہیں ہیں جن سے دوسرے محروم ہوں۔ جو چیز زہر قاتل ہے وہ سب ہی کے لیے قاتل ہے ، نبی کا کام یہ ہے کہ سب سے پہلے اس سے خود بچے اور اپنے قریبی لوگوں کو اس سے ڈرائے ، پھر ہر خاص و عام کو متنبہ کر دے کہ جو بھی اسے کھائے گا، ہلاک ہو جائے گا۔ اور جو چیز نافع ہے وہ سب ہی کے لیے نافع ہے ، نبی کا منصب یہ ہے کہ سب سے پہلے اسے خود اختیار کرے اور اپنے عزیزوں کو اس کی تلقین کرے ، تاکہ ہر شخص دیکھ لے کہ یہ وعظ و نصیحت دوسروں ہی کے لیے نہیں ہے ، بلکہ نبی اپنی دعوت میں مخلص ہے۔ اسی طریقے پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم زندگی بھر عامل رہے۔ فتح مکہ کے روز جب آپ شہر میں داخل ہوئے تو آپ نے اعلان کیا کہ کل ربانی الجاھلیۃ موضوع تحت قدمی ھاتین و اول ما اضعہ ربا العباس۔ ’’زمانہ جاہلیت کا ہر سود جو لوگوں کے ذمے تھا میرے ان قدموں تلے روند ڈالا گیا۔ اور سب سے پہلے جس سود کو میں ساقط کرتا ہوں وہ میرے چچا عباسؓ کا ہے ‘‘ (واضح رہے کہ سود کی حرمت کا حکم آنے سے پہلے حضرت عباس سود پر روپیہ چلاتے تھے اور ان کا بہت سا سود اس وقت لوگوں کے ذمے وصول طلب تھا )۔ ایک مرتبہ چوری کے جرم میں قریش کی ایک عورت فاطمہ نامی کا ہاتھ کاٹنے کا آپ نے حکم دیا۔ حضرت اسامہ بن زید نے اس کے حق میں سفارش کی۔ اس پر آپ نے فرمایا خدا کی قسم، اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔