اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشعراء حاشیہ نمبر١۳۲

 یعنی شیاطین اگر کرنا چاہیں بھی تو یہ کام ان کے بس کا نہیں ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے بھی اپنے آپ کو انسانوں کے سچے معلم اور حقیقی مزکّی کے مقام پر رکھ کر خالص حق اور خالص خیر کی وہ تعلیم دے سکیں جو قرآن دے رہا ہے۔ وہ دھوکا دینے کی خاطر بھی اگر یہ روپ دھاریں تو ان کا کام ایسی آمیزشوں سے خالی نہیں ہو سکتا جو ان کی جہالت اور ان کے اندر چھپی ہوئی شیطانی فطرت کی غمازی نہ کر دیں۔ نیت کی خرابی، ارادوں کی نا پاکی، مقاصد کی خباثت لازماً اس شخص کی زندگی میں بھی اور اس کی تعلیم میں بھی جھلک کر رہے گی جو شیاطین سے الہام حاصل کر کے پیشوا بن بیٹھا ہو۔ بے آمیز راستی اور خالص نیکی نہ شیاطین القاء کر سکتے ہیں اور نہ ان سے ربط ضبط رکھنے والے اس کے حمل ہو سکتے ہیں۔ پھر تعلیم کی بلندی و پاکیزگی پر مزید وہ فصاحت و بلاغت اور وہ علم حقائق ہے جو قرآن میں پایا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر قرآن میں ابر بار یہ چیلنج دیا گیا ہے کہ انسان اور جن مل کر بھی چاہیں تو اس کتاب کے مانند کوئی چیز تصنیف کر کے نہیں لا سکتے : قُلْ لَّائِنِ ا جْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلیٰٓ اَنْ یَّاْ تُوْ ا بِمِثْلِ ھٰذَ االْقُرْاٰنِ لَا یَاْ تُوْنَ بِمِثْلِہِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْراً (بنی اسرائیل۔ آیت 88) قُلْ فَاْ تُوْ ابِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْکُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ  O (یونس۔ آیت 38)۔