اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشعراء حاشیہ نمبر١۰۳

 معجزے کے مطالبے پر اونٹنی پیش کرنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہو محض ایک عام اونٹنی نہ تھی جیسی ہر عرب کے پاس وہاں پانی جاتی تھی، بلکہ ضرور اس کی پیدائش اور اس کے ظہور میں یا اس کی خلقت میں کوئی ایسی چیز تھی جسے معجزے کی طلب پر پیش کرنا معقول ہوتا۔ اگر حضرت صالح اس مطالبے کے جواب میں یوں ہی کسی اونٹنی کو پکڑ کے کھڑا کر دیتے تو ظاہر ہے کہ یہ ایک نہایت فضول حرکت ہوتی جس کی کسی پیغمبر تو در کنار، ایک عام معقول آدمی سے بھی توقع نہیں کی جا سکتی۔ یہ بات یہاں تو صرف سیاق کلام ہی کے اقتضاء سے سمجھ میں آتی ہے ، لیکن دوسرے مقامات پر قرآن میں صراحت کے ساتھ اس اونٹنی کے وجود کو معجزہ کہا گیا ہے۔ سورہ اعراف اور سورہ ہود میں فرمایا گیا ھٰذِہٖ نَا قَۃُ اللہِ لَکُمْ ایٰۃً، ’’ یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے نشانی کے طور پر ہے ’’۔ اور سورہ بنی اسرائیل میں اس سے بھی زیادہ پر زور الفاظ میں ارشاد ہوا ہے :
وَمَا مَنَعَنآ اَنْ نُّرْ سِلَ بِا لْایٰٰتٍ اِلَّا اَنْ کَذَّب َ بِھَا الْاَوَّلُوْ نَ، وَ اٰتَیْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَۃَ مُبْصِرَۃً فَظَلَمُوْ ا بِھَا وَمَا نُرْ سِلُ  بِالْایٰٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفاً ہ (آیت 59)
ہم کو نشانیاں بھیجنے سے کسی چیز نے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ پہلے لوگ ان کو جھٹلا چکے ہیں اور ہم ثمود کے سامنے آنکھوں دیکھتے اونٹنی لے آئے پھر بھی انہوں نے اس کے ساتھ ظلم کیا۔ نشانیاں تو ہم خوف دلانے ہی کے لیے بھیجتے ہیں (تماشا دکھانے کے لیے تو نہیں بھیجتے )۔
اس پر مزید وہ چیلنج ہے جو اونٹنی کو میدان میں لے آنے کے بعد اس کافر قوم کو دیا گیا۔ اس کی نوعیت ہی ایسی تھی کہ صرف ایک معجزہ ہی پیش کر کے ایسا چیلنج دیا جا سکتا تھا۔