اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشعراء حاشیہ نمبر١

یعنی یہ آیات جو اس سورے میں پیش کی جا رہی ہیں ، اس کتاب کی آیات ہیں جو اپنا مدعا صاف صاف کھول کر بیان کرتی ہے۔ جسے پڑھ کر یاسن کر ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ وہ کس چیز کی طرف بلاتی ہے ، کس چیز سے روکتی ہے ، کسے حق کہتی ہے اور کسے باطل قرار دیتی ہے۔ ماننا یا نہ ماننا الگ بات ہے ، مگر کوئی شخص یہ بہانہ کبھی نہیں بنا سکتا کہ اس کتاب کی تعلیم اس کی سمجھ میں نہیں آئی اور وہ اس سے یہ معلوم ہی نہ کر سکا کہ وہ اس کو کیا چیز چھوڑنے اور کیا اختیار کرنے کی دعوت دے رہی ہے۔
قرآن کو الکِتَابُ الْمُبِیْن کہنے کا ایک دوسرا مفہوم بھی ہے ، اور وہ یہ کہ اس کا کتاب الہیٰ ہونا ظاہر و باہر ہے۔ اس کی زبان، اس کا بیان، اس کے مضامین، اس کے پیش کردہ حقائق، اور اس کے حالاتِ نزول، سب کے سب صاف صاف دلالت کر رہے ہیں کہ یہ خدا وند عالم ہی کی کتاب ہے۔ اس لحاظ سے ہر فقرہ جو اس کتاب میں آیا ہے ایک نشانی اور ایک معجزہ (آیت) ہے۔ کوئی شخص عقل و خرد سے کام لے تو اسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کا یقین کرنے کے لیے کسی اور نشانی کی حاجت نہیں ، کتاب مبین کی یہی آیات (نشانیاں ) اسے مطمئن کرنے کے لیے کافی ہیں۔
یہ مختصر تمہیدی فقرہ اپنے دونوں معنوں کے لحاظ سے اس مضمون کے ساتھ پوری مناسبت رکھتا ہے جو آگے اس سورہ میں بیان ہوا ہے۔ کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے معجزہ مانگتے تھے تاکہ اس نشانی کو دیکھ کر انہیں اطمینان ہو کہ واقعی آپ یہ پیغام خدا کی طرف سے لائے ہیں۔ فرمایا گیا کہ اگر حقیقت میں کسی کو ایمان لانے کے لیے نشانی کی طلب ہے تو کتاب مبین کی یہ آیات موجود ہیں۔ اسی طرح کفار نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر الزام رکھتے تھے کہ آپ شاعر یا کاہن ہیں۔ فرمایا گیا کہ یہ کتاب کوئی چیستاں اور معما تو نہیں ہے۔ صاف صاف کھول کر اپنی تعلیم پیش  کر رہی ہے۔ خود ہی دیکھ لو کہ یہ تعلیم کسی شاعر یا کاہن کی ہو سکتی ہے ؟