اس رکوع کو چھاپیں

سورة الفرقان حاشیہ نمبر۸۴

 یعنی وہ ان تین بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے ہیں جن میں اہل عرب کثرت سے مبتلا ہیں ۔ ایک شرک باللہ ، دوسرے قتل ناحق ، تیسرے زنا۔ اسی مضمون کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بکثرت احادیث میں بیان فرمایا ہے ۔ مثلاً عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ سے پوچھا گیا، سب سے بڑا گناہ کیا ہے ۔ فرمایا : اَنْ تَجْعَلَ لِلہِ نِدًّ  ا وَّ ھُوَخَلَقَکَ ’’ یہ کہ تو کسی کو اللہ کا مد مقابل اور ہمسر ٹھیرائے ، حالانکہ تجھے پیدا اللہ نے کیا ہے ‘‘ ۔ پوچھا گیا اس کے بعد فرمایا ان تقتل ولد کا خشیۃ ان یطعَمَ معک، ’’ یہ کہ تو اپنی بچے کو اس خوف سے قتل کر ڈالے کہ وہ تیرے ساتھ کھانے میں شریک ہو جائے گا‘‘۔ پوچھا گیا پھر۔ فرمایا اَنْ تزانی حلیلۃ جارک، ’’ یہ کہ تو اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرے ‘‘ (بخاری، مسلم ، ترمذی، نسائی، احمد )۔ اگرچہ کبیرہ گناہ اور بھی بہت سے ہیں ، لیکن عرب کی سوسائیٹی پر اس وقت سب سے زیادہ تسلط انہی تین گناہوں کا تھا، اس لیے مسلمانوں کی اس خصوصیت کو نمایاں کیا گیا کہ پورے معاشرے میں یہ چند لوگ ہیں جو ان برائیوں سے بچ گئے ہیں ۔
یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ مشرکین کے نزدیک تو شرک سے پرہیز کرنا ایک بہت بڑا عیب تھا ، پھر اسے مسلمانوں کی ایک خوبی کی حیثیت سے ان کے سامنے پیش کرنے کی کونسی معقول وجہ ہو سکتی تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اہل عرب اگرچہ شرک میں مبتلا تھے اور سخت تعصب کی حد تک مبتلا تھے ، مگر در حقیقت اس کی جڑیں اوپری سطح ہی تک محدود تھیں ، کچھ گہری اتری ہوئی نہ تھیں ، اور دنیا میں کبھی کہیں بھی شرک کی جڑیں انسانی فطرت میں گہری اتری ہوئی نہیں ہوتیں ۔ اس کے برعکس خالص خدا پرستی کی عظمت ان کے ذہن کی گہرائیوں میں رچی ہوئی موجود تھی جس کو ابھارنے کے لیے اوپر کی سطح کو بس ذرا زور سے کھرچ دینے کی ضرورت تھی۔ جاہلیت کی تاریخ کے متعدد واقعات ان دونوں باتوں کی شہادت دیت ہیں ۔ مثلاً اَبرہہ کے حملے کے موقع پر قریش کا بچہ بچہ یہ جانتا تھا کہ اس بلا کو وہ بت نہیں ٹال سکتے جو خانۂ  کعبہ میں رکھے ہوئے ہیں بلکہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ٹال سکتا ہے جس کا یہ گھر ہے ۔ آج تک وہ اشعار اور قصائد محفوظ ہیں جو اصحاب الفیل کی تباہی پر ہم عصر شعراء نے کہے تھے ۔ ان کا لفظ لفظ گواہی دیتا ہے کہ وہ لوگ اس واقعہ کو محض اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ سمجھتے تھے اور اس امر کا ادنیٰ سا گمان بھی نہ رکھتے تھے کہ اس میں ان کے معبودوں کا کوئی دخل ہے ۔ اسی موقع پر شرک کا یہ بد ترین کرشمہ بھی قریش اور تمام مشرکین عرب کے سامنے آیا تھا کہ ابرہہ جب مکے کی طرف جاتے جوئے طائف کے قریب پہنچا تو اہل طائف نے اس اندیشے سے کہ یہ کہیں ان کے معبود ’’لات‘‘ کے مندر کو بھی نہ گرا دے ، اپنی خدمات کعبے کو منہدم کرنے کے لیے اس کے آگے پیش کر دیں اور اپنے بدرقے کا سردار تھا۔ علاوہ بریں قریش اور دوسرے اس کے ساتھ کر دیے تاکہ وہ پہاڑی راستوں سے اس کے لشکر کو بخیریت مکہ تک پہنچا دیں ۔ اس واقعہ کی تلخ یاد مدتوں تک قریش کو ستاتی رہی اور سالہا سال تک وہ اس شخص کی قبر پر سنگ باری کرتے رہے جو طائف کے بدرقے کا سردار تھا۔ علاوہ بریں قریش اور دوسرے اہل عرب اپنے دین کو حضرت ابراہیم کی طرف منسوب کرتے تھے ، اپنے بہت سے مذہبی اور معاشرتی مراسم اور خصوصاً مناسک حج کو دین ابراہیمی ہی کے اجزا قرار دیتے تھے ، اور یہ بھی مانتے تھے کہ حضرت ابراہیم خالص خدا پرست تھے ، بتوں کی پرستش انہوں نے کبھی نہیں کی ۔ ان کے ہپاں کی روایات میں یہ تفصیلات بھی محفوظ تھیں کہ بت پرستی ان کے ہاں کب سے رائج ہوئی اور کون سا بت کب ، کہاں سے ، کون لایا ۔ اپنے معبودوں کی جیسی کچھ عزت ایک عام عرب کے دل میں تھی اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ جب کبھی اس کی دعاؤں اور تمناؤں کے خلاف کوئی واقعہ ظہور میں آ جاتا تو بسا اوقات وہ معبود صاحب کی توہین بھی کر ڈالتا تھا اور اس کی نذر و نیاز سے ہاتھ کھینچ لیتا تھا۔ ایک عرب اپنے باپ کے قاتل سے بدلہ لینا چاہتا تھا۔ ذولْخَلَصَہ نامی بت کے آستانے پر جا کر اس نے فال کھلوائی۔ جواب نکلا یہ کام نہ کیا جا ۔اس پر عرب طیش میں آگیا۔ کہنے لگا :
لو کنت یا ذالخلص الموتورا            مثلی وکان شیخک المقبورا
لم تنہ عن قتل العداۃ زورا
یعنی اے ذولخلصہ ! اگر میری جگہ تو ہوتا اور تیرا باپ مارا گیا ہوتا تو ہر گز تو یہ جھوٹی بات نہ کہتا کہ ظالموں سے بدلہ نہ لیا جائے ۔ ایک اور عرب صاحب اپنے اونٹوں کا گلہ اپنے معبود سعد نامی کے آستانے پر لے گئے تاکہ ان کے لیے ء برکت حاصل کریں ۔ یہ ایک لمبا تڑنگا بت تھا جس پر قربانیوں کا خون لتھڑا ہوا تھا۔ اونٹ اسے دیکھ کر بھڑک گئے اور ہر طرف بھاگ نکلے ۔ عرب اپنے اونٹوں کو اس طرح تتر بتر ہوتے دیکھ کر غصے میں آگیا۔ بت پر پتے ر مارتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ ’’ خدا تیرا ستیاناس کرے ۔ میں آیا تھا برکت لینے کے لیے اور تو نے میرے رہے سہے اونٹ بھی بھگا دیے ‘‘۔ متعدد بت ایسے تھے جن کی اصلیت کے متعلق نہایت گندے قصے مشہور تھے ۔ مثلاً اَسف اور نائلہ جن کے مجسمے صفا اور مروہ پر رکھے ہوئے تھے ، ان کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ دونوں در اصل ایک عورت اور ایک مرد تھے جنہوں نے خانہ کعبہ میں زنا کا ارتکاب کیا تھا اور خدا نے ان کو بتھر بنا دیا ۔ یہ حقیقت جن معبودوں کی ہو، ظاہر ہے کہ ان کی کوئی حقیقی عزت تو عابدوں کے دلوں میں نہیں ہو سکتی ۔ ان مختلف پہلوؤں کو نگاہ میں رکھا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ خالص خدا پرستی کی ایک گہری قدر و منزلت تو دلوں میں موجود تھی، مگر ایک طرف جاہلانہ قدامت پرستی نے اس کو دبا رکھا تھا، اور دوسری طرف قریش کے پروہت اس کے خلاف تعصبات بھڑکاتے رہتے تھے ، کیونکہ بتوں کی عقیدت ختم ہو جانے سے ان کو اندیشہ تھا کہ عرب میں ان کو جو مرکزیت حاصل ہے وہ ختم ہو جائے گی اور ان کی آمدنی میں بھی فرق آ جائے گا۔ ان سہاروں پر جو مذہب شرک قائم تھا وہ توحید کی دعوت کے مقابلے میں کسی وقار کے ساتھ کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔ اسی لیے قرآن نے خود مشرکین کو خطاب کر کے بے تکلف کہا کہ تمہارے معاشرے میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پیروؤں کو جن وجوہ سے برتری حاصل ہے ان میں سے ایک اہم ترین وجہ ان کا شرک سے پاک ہونا اور خالص کدا پرستی پر قائم ہو جاتا ہے ۔ اس پہلو سے مسلمانوں کی برتری حاصل ہے ان میں سے ایک اہم ترین وجہ ان کا شرک سے پاک ہونا اور خالص کدا پرستی پر قائم ہو جانا ہے ۔ اس پہلو سے مسلمانوں کی برتری کو زبان سے ماننے کے لیے چاہے مشرکین تیار نہ ہوں ، مگر دلوں میں وہ اس کا وزن محسوس کرتے تھے ۔