اس رکوع کو چھاپیں

سورة الفرقان حاشیہ نمبر۷۹

 یعنی تکبر کے ساتھ اکڑتے اور اینٹھتے ہوئے نہیں چلتے ، جبّاروں اور مفسدوں کی طرح اپنی رفتار سے اپنا زور جتانے کی کوشش نہیں کرتے ، بلکہ ان کی چال ایک شریف اور سلیم الطبع اور نیک مزاج آدمی کی سی چال ہوتی ہے ۔ ’’نرم چال‘‘ سے مراد ضعیفانہ اور مریضانہ چال نہیں ہے ، اور نہ وہ چال ہے جو ایک ریا کار آدمی اپنے انکسار کی نمائش کرنے یا اپنی خدا ترسی کا مظاہرہ کرتے کے لیے تصنع سے اختیار کرتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود اس طرح مضبوط قدم رکھتے ہوئے چلتے تھے کہ گویا نشیب کی طرف اتر رہے ہیں ۔ حضرت عمر کے متعلق روایات میں آیا ہے کہ انہوں نے ایک جواب آدمی کو مَریَل چال چلتے دیکھا تو روک کر پوچھا کیا تم بیمار ہو؟ اس نے عرض کیا نہیں ۔ آپ نے درہ اٹھا کر اسے دھمکایا اور بولے ۔ قوت کے ساتھ چلو۔ اس سے معلوم ہوا کہ نرم چال سے مراد ایک بھلے مانس کی سی فطری چال ہے نہ کہ وہ جو بناوٹ سے منکسرانہ بنائی گئی ہو یا جس سے خواہ مخواہ کی مسکنت اور ضعیفی ٹپکتی ہو۔
مگر غور طلب پہلو یہ ہے کہ آدمی کی چال میں آخر وہ کیا اہمیت ہے جس کی وجہ سے اللہ کے نیک بندوں کی خصوصیات گناتے ہوئے سب سے پہلے اس کا ذکر کیا گیا؟ اس سوال کو ذرا تامل کی نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کی چال محض اس سکے انداز رفتار ہی کا نام نہیں ہے بلکہ در حقیقت وہ اس کے ذہن اور اس کی سیرت و کردار کی اولین ترجمان بھی ہوتی ہے ۔ ایک عیار آدمی کی چال، ایک غنڈے بد معاش کی چال، ایک ظالم و جابر کی چال، ایک خود پسند متکبر کی چال، ایک با وقار مہذب آدمی کی چال ، ایک غریب مسکین کی چال، اور اسی طرح مختلف اقسام کے دوسرے انسانوں کی چالیں ایک دوسرے سے اس قدر مختلف ہوتی ہیں کہ ہر ایک کو دیکھ کر بآسانی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کس چال کے پیچھے کس طرح کی شخصیت جلوہ گر ہے ۔ پس آیت کا مدعا یہ ہے کہ رحمان کے بندوں کو تو تم عام آدمیوں کے درمیان چلتے پھرتے دیکھ کر ہی بغیر کسی سابقہ تعارف کے الگ پہچان لو گے کہ یہ کس طرز کے لوگ ہیں ۔ اس بندگی نے ان کی ذہنیت اور ان کی سیرت کو جیسا کچھ بنا دیا ہے اس کا اثر ان کی چال تک میں نمایاں ہے ۔ ایک آدمی انہیں دیکھ کر پہلی نظر میں جان سکتا ہے کہ یہ شریف اور حلیم اور ہمدرد لوگ ہیں ، ان سے کسی شر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم، بنی اسرائیل ، حاشیہ 43 ۔ جلد چہارم، لقمان ، حاشیہ 33) ۔