اس رکوع کو چھاپیں

سورة الفرقان حاشیہ نمبر۷۳

 یہ بات در اصل وہ محض کافرانہ شوخی اور سراسر ہٹ دھرمی کی بنا پر کہتے تھے ، جس طرح فرعون نے حضرت موسیٰ سے کہا تھا : وَمَارَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ۔’’ رب العا لمین کیا ہوتا ہے ؟‘‘حالانکہ نہ کفار مکہ خدائے رحمان سے بے خبر تھے اور نہ فرعون ہی اللہ رب العالمین سے نا واقف تھا۔ بعض مفسرین نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ اہل عرب کے ہاں اللہ تعالیٰ کے لیے ’’رحمان‘‘ کا اسم مبارک شائع نہ تھا اس لیے انہوں نے یہ اعتراض کیا ۔ لیکن آیت کا انداز کلام خود بتا رہا ہے کہ یہ اعتراض نا واقفیت کی بنا پر نہیں بلکہ طغیان جاہلیت کی بنا پر تھا، ورنہ اس پر گرفت کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ نرمی کے ساتھ انہیں سمجھا دیتا کہ یہ بھی ہمارا ہی ایک نام ہے ، اس پر کان نہ کھڑے کرو۔ علاوہ بریں یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ عرب میں اللہ تعالیٰ کے لیے قدیم زمانے سے رحمان کا لفظ معروف و مستعمل تھا۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، السجدہ، حاشیہ 5 ۔ سباء، حاشیہ 35 ۔