اس رکوع کو چھاپیں

سورة الفرقان حاشیہ نمبر۷١

 یعنی تمہارا کام نہ کسی ایمان لانے والے کو جزا دینا ہے ، نہ کسی انکار کرنے والے کو سزا دینا ۔ تم کسی کو ایمان کی طرف کھینچ لانے اور انکار سے زبردستی روک دینے پر مامور  نہیں کیے گئے ہو۔ تمہاری ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ جو راہ راست قبول کرے اسے انجام نیک کی بشارت دے دو، اور جو اپنی بد راہی پر جما رہے اس کو اللہ کی پکڑ سے ڈرا دو۔
اس طرح کے ارشادات قرآن مجید میں جہاں بھی آئے ہیں ان کا اصل روئے سخن کفار کی طرف ہے ، اور مقصد در اصل ان کی یہ بتانا ہے کہ نبی ایک نے غرض مصلح ہے جو خلق خدا کی بھلائی کے لیے خدا کا پیغام پہنچاتا ہے اور انہیں ان کے انجام کا نیک و بد بتا دیتا ہے ۔ وہ تمہیں زبر دستی تو اس پیغام کے قبول کرنے پر مجور نہیں کرتا کہ تم خواہ مخواہ اس پر بگڑنے اور لڑنے پر تل جاتے ہو۔ تم مانو گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے ، اس کچھ نہ دے دو گے ۔ نہ مانو گے تو اپنا نقصان کرو گے ، اس کا کچھ نہ بگاڑو گے ۔ وہ پیغام پہنچا کر سبکدوش ہو چکا ، اب تمہارا معاملہ ہم سے ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بسا اوقات لوگ اس غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں کہ مسلمانوں کے معاملے میں بھی نبی کا کام بس خدا کا پیغام پہنچا دینے اور انجام نیک کا مژدہ سنا دینے تک محدود ہے ۔ حالانکہ قرآن جگہ جگہ اور بار بار تصریح کرتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے نبی صرف مبشر ہی نہیں ہے بلکہ معلم اور مزکّی اور نمونہ عمل بھی ہے ، حاکم اور قاضی اور امیر مطاع بھی ہے ، اور اس کی زبان سے نکلا ہوا ہر فرمان ان کے حق میں قانون کا حکم رکھتا ہے جس کے آگے ان کو دل کی پوری رضا مندی سے سر تسلیم خم کرنا چاہیے ۔ لہٰذا سخت غلطی کرتا ہے وہ شخص جو : مَاعَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلَاغ ۔ اور۔ مَٓا اَرْسَلْنٰکَ اَلَّا مُبَشِّراً وَّ نَذِیْراً ، اور اسی مضمون کی دوسری آیات کو نبی اور اہل ایمان کے باہمی تعلق پر چسپاں کرتا ہے ۔