اس رکوع کو چھاپیں

سورة الفرقان حاشیہ نمبر۴۵

 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ اس کے ذریعہ سے ہم تمہارا دل مضبوط کرتے رہیں ‘‘ یا ’’تمہاری ہمت بندھاتے رہیں ‘‘۔ الفاظ دونوں مفہوموں پر حاوی ہیں اور دونوں ہی مراد بھی ہیں ۔ اس طرح ایک ہی فقرے میں قرآن کو بتدریج نازل کرنے کی بہت سی حکمتیں بیان کر دی گئی ہیں :
1: وہ لفظ بلفظ حافظہ میں محفوظ ہو سکے ، کیونکہ اس کی تبلیغ و اشاعت تحریری صورت میں نہیں بلکہ ایک اَن پڑھ نبی کے ذریعہ سے ان پڑھ قوم میں زبانی تقریر کی شکل میں ہو رہی ہے ۔
2 : اس کی تعلیمات اچھی طرح ذہن نشین ہو سکیں ۔اس کے لیے ٹھیر ٹھیر کر تھوڑی تھوڑی بات کہنا اور ایک ہی بات کو مختلف اوقات میں مختلف طریقوں سے بیان کر زیادہ مفید ہے ۔
3: اس کے بتائے ہوئے طریق زندگی پر دل جمتا جائے ۔ اس کے لیے احکام و ہدایات کا بتدریج نازل کرنا زیادہ مبنی پر حکمت ہے ، ورنہ اگر سارا قانون اور پورا نظام حیات بیک وقت بیان کر کے اس قائم کرنے کا حکم دے دیا جائے تو ہوش پراگندہ ہو جائیں ۔ علاوہ بریں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر حکم اگر مناسب موقع پر دیا جائے تو اس کی حکمت اور روح زیادہ اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے ، بہ نسبت اس کے کہ تمام احکام درعہ وار مرتب کر کے بیک وقت دے دیے گئے ہوں ۔
4: تحریک اسلامی کے دوران میں جب کہ حق اور باطل کی مسلسل کشمکش چلی رہی ہو، نبی اور اس کے پیروؤں کی ہمت بندھائی جاتی رہے اس کے لیے خدا کی طرف سے بار بار، وقتاً فوقتاً ، موقع بموقع پیغام آنا زیادہ کار گر ہے بہ نسبت اس کے کہ بس ایک دفعہ ایک لمبا چوڑا ہدایت نامہ دے کر عمر بھر کے لیے دنیا بھر کی مزاحمتوں کا مقابل کرنے کو یونہی چھوڑ دیا جائے ۔ پہلی صورت میں آدمی محسوس کرتا ہے کہ جس خدا نے اس کام پر مامور کیا ہے ، وہ اس کی طرف متوجہ ہے ، اس کے کام سے دلچسپی لے رہا ہے ، اس کے حالات پر نگاہ رکھتا ہے ، اس کی مشکلات میں رہنمائی کر رہا ہے ، اور ہر ضرورت کے موقع پر اسے شرفِ بار یابی و مخاطبت عطا فرما کر اس کے ساتھ اپنے تعلق کا تازہ کرتا رہتا ہے ۔ یہ چیز حوصلہ بڑھانے والی اور عزم کو مضبوط رکھنے والی ہے دوسری صورت میں آدمی کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بس وہ ہے اور طوفان کی موجیں ۔