اس رکوع کو چھاپیں

سورة الفرقان حاشیہ نمبر۴۴

 یہ کفار مکہ کا بڑا دل پسند اعتراض تھا جسے وہ اپنے نزدیک نہایت زور دار اعتراض سمجھ کر بار بار دہراتے تھے ، اور قرآن میں بھی اس کو متعدد مقامات پر نقل کر کے اس کا جواب دیا گیا ہے (تفہیم القرآن، جلد دوم، النحل حواشی 101 تا 106 بنی اسرائیل ، حاشیہ 119) ان کے سوال کا مطلب یہ تھا کہ اگر یہ شخص خود سوچ سوچ کر ، یا کسی سے پوچھ پوچھ کر اور کتابوں میں سے نقل کر کر کے یہ مضامین نہیں لا رہا ہے ، بلکہ یہ واقعی خدا کی کتاب ہے تو پوری کتاب اکٹھی ایک وقت میں کیوں نہیں آ جاتی۔ خدا تو جانتا ہے کہ پوری بات کیا ہے جو وہ فرمانا چاہتا ہے ۔ وہ نازل کرنے والا ہوتا تو سب کچھ بیک وقت فرما دیتا ۔ یہ جو سوچ سوچ کر کبھی کچھ مضمون لایا جاتا ہے اور کبھی کچھ، یہ اس بات کی صریح علامت ہے کہ وحی اوپر سے نہیں آتی، یہیں کہیں سے حاصل کی جاتی ہے ، یا خود گھڑ گھڑ کر لائی جاتی ہے ۔