اس رکوع کو چھاپیں

سورة الفرقان حاشیہ نمبر۴

 یعنی خبر دار کرنے والا ، متنبہ کرنے والا، غفلت اور گمراہی کے برے نتائج سے ڈرانے والا ۔ اس سے مراد فرقان بھی ہو سکتا ہے ، اور وہ ’’بندہ‘‘ بھی جس پر فرقان نازل کیا گیا۔ الفاظ ایسے جامع ہیں کہ دونوں ہی مراد ہو سکتے ہیں ، اور حقیقت کے اعتبار سے چونکہ دونوں ایک ہیں ، اور ایک ہی کام کے لیے بھیجے گئے ہیں ، اس لیے کہنا چاہیے کہ دونوں ہی مراد ہیں ۔ پھر یہ جو فرمایا کہ سارے جہان والوں کے لیے نذیر ہو، تو اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کی دعوت اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کسی ایک ملک کے لیے نہیں ، پوری دنیا کے لیے ہے ، اور اپنے ہی زمانے کے لیے نہیں ، آنے والے تمام زمانوں کے لیے ہے ۔ یہ مضمون متعدد مقامات پر قرآن مجید میں بیان ہوا ہے ۔ مثلاً فرمایا : یٰٓاَ یُّھَالنَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعاً، ’’ اے انسانو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ‘‘ (الاعراف، آیت 158) ۔ وَاُوْ حِیَ اِلَیَّ ھٰذَالْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْم بَلَغَ ، ’’ میری طرف یہ قرآن بھیجا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے میں تم کو خبردار کروں اور جس جس کو بھی یہ پہنچے ‘‘ (الانعام آیت 19) وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْراً وَّ نَذِیْراً ، ’’ ہم نے تم کو سارے ہی انسانوں کے لیے بشارت دینے والا اور خبر دار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے ‘‘ (سبا آیت 28) وَمَآ اَرْسَلْنٰکَاِالَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ، ’’ اور ہم نے تم کو تمام دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے ‘‘ (الانبیاء، آیت 107 ) اور اسی مضمون کو خوب کھول کھول کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے احادیث میں بار بار بیان فرمایا ہے کہ بُعثت الی الاحمر والا سود ، ’’ میں کالے اور گورے سب کی طرف بھیجا گیا ہوں ‘‘۔ اور کان النبی یبعث الیٰ قومہ خاصۃ و بعثت الی الناس عامۃ ، ’’ پہلے ایک نبی خاص طور پر اپنی ہی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا ، اور میں عام طور پر تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں ‘‘ (بخاری و مسلم) اور و ارسلت الی الخلق کافۃ و خُرِم بی النبیون، ’’ میں ساری خلقت کی طرف بھیجا گیا ہوں اور ختم کر دیے گئے میری آمد پر انبیاء‘‘(مسلم) ۔