اس رکوع کو چھاپیں

سورة الفرقان حاشیہ نمبر۳۰

 یعنی رسول اور اہل ایمان کے لیے منکرین آزمائش ہیں اور منکرین کے لیے رسول اور اہل ایمان۔ منکرین نے ظلم و ستم اور جاہلانہ عداوت کی جو بھٹی گرم کر رکھی ہے وہی تو وہ ذریعہ ہے جس سے ثابت ہو گا کہ رسول اور اس کے صادق الایمان پیرو کھرا سونا ہیں ۔ کھوٹ جس میں بھی ہو گی وہ اس بھٹی سے بخیریت نہ گزر سکے گا، اور اس طرح خالص اہل ایمان کا ایک چیدہ گروہ چھٹ کر نکل آئے گا جس کے مقابلے میں پھر دنیا کی کوئی طاقت نہ ٹھیر سکے گی ۔ یہ بھٹی گرم نہ ہو تو ہر طرح کے کھوٹے اور کھرے آدمی نبی کے گرد جمع ہو جائیں گے ، اور دین کی ابتدا ہی ایک خام جماعت سے ہو گی۔ دوسری طرف منکرین کے لیے بھی رسول اور اصحاب رسول ایک سخت آزمائش ہیں ۔ ایک عام انسان کا اپنی ہی برادری کے درمیان سے یکایک نبی بنا کر اُٹھا دیا جانا، اس کے پاس کوئی فوج فرّا اور مال و دولت نہ ہونا ، اس کے ساتھ کلام الہٰی اور پاکیزہ سیرت کے سوا کوئی عجوبہ چیز نہ ہونا، اس کے ابتدائی پیروؤں میں زیادہ تر غریبوں ، غلاموں اور نو عمر لوگوں کا شامل ہونا اور اللہ تعالیٰ کا ان چند مٹھی بھر انسانوں کو گویا بھیڑیوں کے درمیان نے سہارا چھوڑ دینا، یہی وہ چھلنی ہے جو غلط قسم کے آدمیوں کو دین کی طرف آنے سے روکتی ہے اور صرف ایسے ہی لوگوں کو چھان چھان کر آگے گزارتی ہے جو حق کو پہچاننے والے اور راستی کو ماننے والے ہوں ۔ یہ چھلنی اگر نہ لگائی جاتی اور رسول بڑی شان و شوکت کے ساتھ آ کر تختِ فرماں روائی پر جلوہ گر ہوتا، خزانوں کے منہ اس کے ماننے والوں کے لیے کھول دیے جاتے ، اور سب سے پہلے بڑے بڑے رئیس آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ پر بیعت کرتے ، تو آخر کونسا دنیا پرست اور بندہ غرض انسان اتنا احمق ہو سکتا تھا کہ اس پر ایمان لانے والوں میں شامل نہ ہو جاتا ۔ اس صورت میں تو راستی پسند لوگ سب سے پیچھے رہ جاتے اور  دنیا کے طالب بازی لے جاتے ۔