اس رکوع کو چھاپیں

سورة الفرقان حاشیہ نمبر١۷

 یعنی دیوانہ ۔ اہل عرب کے نزدیک دیوانگی کے دو ہی وجہ تھے ۔یا تو کسی پر بن کا سایہ ہو گیا ہو۔ یا کسی دشمن نے جادو کر کے پاگل بنا دیا ہو ۔ ایک تیسری وجہ ان کے نزدیک اور بھی تھی، اور وہ یہ کہ کسی دیوی، یا دیوتا کی شان میں آدمی کوئی گستاخی کر بیٹھا ہو اور اس کی مار پڑ گئی ہو۔ کفار مکہ وقتاً فوقتاً یہ تینوں وجوہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مطابق بیان کرتے تھے ۔ کبھی کہتے اس شخص پر کسی جن کا تسلط ہو گیا ۔ کچھ کہتے کسی دشمن نے بیچارے پر جادو کر دیا۔ اور کبھی کہتے کہ ہمارے دیوتاؤں میں سے کسی کی بے ادبی کرنے کا خمیازہ ہے جو غریب بھگت رہا ہے ۔ لیکن ساتھ ہی اتنا ہوشیار  بھی مانتے تھے کہ ایک دار الترجمہ اس شخص نے قائم کر رکھا ہے اور پرانی پرانی کتابوں کے اقتباسات نکلوا نکلوا کر یاد کرتا ہے ۔مزید براں وہ آپ کو ساحر اور جادو گر بھی کہتے تھے ، گویا آپ ان کے نزدیک مسحور بھی تھے اور ساحر بھی۔ اس پر ایک اور ردّا شاعر ہونے کی تہمت کا بھی تھا ۔